
یہ 24 جنوری 2024 کی بات ہے سوشل میڈیا پر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ سندھ کے کچے کے ڈاکوؤں نے لوئر دیر کے علاقے کوٹو سے تعلق رکھنے والے حاجی حمید عرف حاجیانو کو یرغمال بنا لیا ہے، تفصیلات کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں نےگاڑی سستی قیمت پر دینے کا جھانسہ دیکر دو نوجوانوں کو یرغمال بنا لئے ہیں ، مغوی نوجوانوں کا تعلق لوئر دیر اور باجوڑ سے ہیں، لوئر دیر پولیس نے بھی واقعہ کی تصدیق کردی، اس سلسلے میں باخبر ذرائع سے معلوم ہوگیا ہے کہ کوٹو حاجی آباد دیر لوئر سے تعلق رکھنے والے حاجی حمید عرف حاجیانوں نے سوشل میڈیا پر گاڑیوں کی تصاویر دیکھی اور پھر ساتھی(جس کا تعلق باجوڑ سے بتایا جاتا ہے) سمیت گاڑی خرید نے کیلئے پنجاب سندھ گئے جہاں پر کچے کے ڈاکوؤں نے انھیں لوکیشن سینڈ کی جب دونوں نوجوان وہاں پر پہنچ گئےتو دونوں ساتھیوں کو کچے کے ڈاکوؤں نے اسلحہ کی نوک پر یرغمال بنا کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیے، زرائع کے مطابق دونوں مغویوں کے اہل خانہ سے پانچ کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جارہا ہے، جبکہ مغویوں کی ورثاء نے مغویوں کی بحفاظت بازیابی کیلئے حکومت سے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے، مغویوں کے بچے اور خاندان غم سے نڈھال ہیں اور وہ مغویوں کی رہائی کے منتظر ہے، جبکہ کچے کی ڈاکوؤں کی جانب سے کروڑوں کی تاوان کی ادائیگی ان کی بس سے باہر ہے، ادھر ڈی پی او لوئر دیر ضیاء الدین احمد نے دو نوجوانوں کی اغواء کی تصدیق کی ہے کہ دونوں نوجوان لوئر دیر سے پنجاب کو اپنے مرضی سے گئے تھے، جہاں سے وہ لاپتہ ہوگئے ہیں، انہوں نے کہا کہ مزکورہ واقعہ پنجاب اور سندھ کے سنگم پر پیش آیا ہے اور لوئر دیر پولیس اس میں کچھ نہیں کرسکتا ۔۔۔
سب سے پہلے ہم کچے کا علاقے کے بارے میں مختصراً بتاتے ہیں،
جب دریائے سندھ مون سون کی بارشوں کے دوران پوری طرح سے پھیلتا ہے تو پانی دریا کے دائیں اور بائیں طرف پھیل کر حفاظتی بندوں تک پہنچ جاتا ہے۔ برطانوی دور حکومت میں جب نہری نظام بنایا گیا تھا تو حفاظتی بندوں کے اندرونی علاقے کو کچا اور بیرونی علاقے کو پکا قرار دیا گیا ہے۔
کچے کے علاقے میں شر، تیغانی، جاگیرانی، جتوئی سمیت مختلف بلوچ اور چاچڑ، مہر، میرانی و سندرانی سمیت دیگر سندھی قبائل آباد ہیں جو یہاں کی زرخیز زمین پر کاشتکاری کرتے اور مال مویشی پالتے ہیں۔
کچے کے علاقے کی زمین محکمہ جنگلات اور محکمہ ریوینیو کی ملکیت ہے جو کسی کو باضابطہ طور پر آلاٹ نہیں کی گئی ہے۔
کشمور میں تقریباً 64 کلومیٹر، سکھر میں 40 کلومیٹر، گھوٹکی میں 78 کلومیٹر اور شکارپور میں 38 کلومیٹر کے قریب حفاظتی بند موجود ہے۔
کچے میں زمین کی حد بندیوں اور مال مویشییوں کی چوری پر برادریوں میں جھگڑے معمول کی بات ہے جو بعض اوقات سنگین شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اگر ایک برادری کی لڑکی نے دوسری برداری کے کسی شخص سے پسند کی شادی کی یا اظہار کیا تو بھی قبائلی تنازع شروع ہو جاتا ہے جس کی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔
پولیس کے مطابق کچے میں رہنے والی ہر برادری کے پاس جدید اسلحہ موجود ہے۔
کچے میں روزمرہ کے کاموں کے لیے زیر زمین پانی استعمال کیا جاتا ہے، جب دریا کا پانی اتر جاتا ہے تو کاشت زیر زمین پانی سے کی جاتی ہے جو ٹیوب ویلز کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں بجلی نہیں ہے، ٹیوب ویلوں کو چلانے اور گھروں کو روشن کرنے کے لیے اب سولر پینلز کی مدد سے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔
یہاں بسے ڈاکو بڑے قبائل کے لوگوں کو تنگ نہیں کرتے جبکہ چھوٹی اور غریب آبادیوں سے بھتہ لیا جاتا ہے۔
اگرچہ گزشتہ ایک عشرہ سے سوشل میڈیا پر اس طرح کے تنبیہی بیانات چل رہی تھی کہ اگر آپ شادی کے جھانسے، نوکری کے دلاسے پر، محبوبہ سے ملنے، سستی گاڑی، کار، ٹریکٹر، ڈاٹسن، سستے مویشی، مال مویشی کے خرید و فروخت، گاڑیوں کا لین دین یا کاروباری سلسلے میں روجھان، کچہ میراں پور، گڈا نال، کن، اوزمال، شاہوالی ،ینگلہ اچھا، سونمیانی ،سبزانی ،عمر کوٹ، گڈو،ڈیرہ موڑ و دیگر علاقہ جات کچہ ہائے جارہے ہیں تو آپ اغواء ہونے جارہے ہیں ۔
لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس طرح کے کسی لالچ میں آکر کچے کے ڈاکوؤں کے نرغے میں آ جاتے ہیں، اس میں سے ایک حاجی حمید عرف حاجیانو بھی تھے، حاجیانو کے رہائی کیلئے نہ صرف میڈیا اور سوشل میڈیا پر آواز اٹھایا گیا بلکہ منتخب نمائندوں سمیت سیاسی و سماجی رہنماؤں نے بھی بھر پور کوششیں جاری رکھیں۔
4 اپریل کو افطار کے فوراً بعد ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر خبریں گرم ہوگئ کہ حاجیانو کو بازیاب کرا لیا گیا، اور پھر ہر کوئی اس کا کریڈٹ سمیٹنے لگا،
ایک صارف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر لکھا کہ حاجی حمید عرف حاجیانوں کچے ڈاکوں نے قید کیا تھا بازیاب ہوگیا جس نے بھی آواز اٹھایا تھا سوشل ،ایکٹویسٹ کا بہت بہت شکریہ
ایک اور صارف نے لکھا کہ الحمدللہ آپ سب لوگوں کی دعاؤں کی برکت سے حاجی حمید عرف حاجیانو بازیاب ہوگیا۔جس کے جواب میں ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ
دعاؤں سے نہیں تاوان ادائیگی سے حاجی حمید بازیاب ہوگیا،
ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ کریڈٹ لینے کے ضرورت نہیں
حاجی حمید کو بھاری تاوان ادائیگی پر کچے کے ڈاکوؤں نے رہا کردیا،
ایک ممبر صوبائی اسمبلی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا کہ #الحمداللہ کچے کے علاقے میں اغواء ہونے والے حمید عرف حاجیانو سکنہ کوٹو بازیاب۔ حمید نے اپنے بھائیوں کیساتھ رابطہ کرلیا ہے انکے خاندان اور لوئر دیر کے سارے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں… لوئر دیر کے تمام منتخب نمائندگان اور میں خود اس اہم مسلے میں اعلی حکام اور ائی جی خیبر پختون خواہ سے مسلسل رابطے میں تھا اج اسی سلسلے میں ائی جی صاحب سے ملاقات بھی کیا تھا۔۔
ایک صارف نے لکھا کہ…
کشمیر کو انڈیا سے آزاد کرانے والے بہادر قوم آج کچے کے ڈاکوؤں سے ایک شہری کو تاوان کے عوض رہا کرانے پر جشن منا رہے ہیں،
ایک اور صارف نے لکھا کہ….
کیا حاجی حمید عرف حاجیانو لوگوں کے دُعاٶں سے اذاد ہوا یا پیسوں سے ؟
ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ…
تاوان کے عوض مغوی شہری بازیاب کرانے پر جس ریاست میں جشن منایا جاتا ہے اس ریاست کے شہری ہونے پر فخر نہیں شرم کا احساس ہونا چاہیے ، بازیابی کی قیمت ادا کرکے جشن اور کریڈٹ نہیں بلکہ ریاستی ناکامی اور اپنے بے بسی کا ماتم کیا جانا چاہئے،
ایک صارف نے لکھا کہ باخبر ذرائع کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں کے ساتھ پہلے سولہ لاکھ میں بات ختم ہو گئی تھی لیکن جب سوشل میڈیا پر چندے کی بات کی گئی تو بات پینتیس لاکھ تک پہنچ گئی اور یو حمید عرف حاجیانو 3500000 لاکھ روپے تاوان کے عوض رہا ہو گئے۔جس کے تناظر میں ایک اور
صارف نے لکھا کہ نہ عیسٰی پیر نہ موسیٰ پیر سب سے بڑا ہے پیسہ پیر ۔ایک عربی کہاوت ہے کہ انقود تحلل عقود یعنی نقد رقم الجھے ہوئے گرہیں کھولتا ہے، اور
انگریزی میں کہا جاتا ہے Money is power and power is everything۔سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ پیسہ طاقت ہے اور طاقت ہی سب کچھ ہے۔اگرچہ یہ بات روحانیت و معرفت کے اصولوں کے بر خلاف ہے مگر مادیت و صارفیت کے اس تیز رفتار دور میں چند اشیا کے استثنا کے ساتھ نوے فیصد درست بھی ہے۔اس سلسلے میں جب ہم احادیث کی طرف جاتے ہیں تو ہمیں اس طرح کی رہنمائی بھی ملتی ہے کہ آخیر زمانے میں دین کا کام بھی درہم و دینار سے ہی ہوگا۔یعنی خدائی کاز بھی لوگ مفت نہیں کریں گے اس کے لیے پیسے درکار ہوں گے۔دوسرا مفہوم یہ ہوگا کہ تبلیغ و ترویج دین کا کام بھی بنا پیسے کے نہیں ہوگا۔آج یہ سب ہو بھی رہا ہے۔آج تبلیغ دین و دفاع امت کا تمام تر انحصار پاور اور پیسہ پر ہی ہے۔ورنہ نہ قوم و ملت محفوظ ہے نہ دین کی سرحد سلامت ہے۔
یہ بات تو سچ ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے مگر یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پیسہ بہت کچھ ہے۔خالی جیب بہت بھاری ہوتی ہے۔انسان چلتے ہوۓ لڑکھڑا جاتا ہے۔جیب بھری ہو تو جوش کا لیبل آسمان پر ہوتا ہے۔سماج میں آپ کس صف، کس مسند کے قابل ہیں، آپ کا شہ نشیں کہاں لگے گا، گھر میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ ہے یہ سب کچھ پیسے ہی طے کرتے ہیں۔والدین، برادر و خواہر، اہل و عیال، ان سب عزیز و و خونی رشتہ داروں کے نزدیک بھی آپ کے احترام و تقدس، پیار و اپناپن، ہونے نا ہونے کا معیار پیسوں سے ہی متعین ہوتا ہے دو چار مستثنات کے ساتھ۔آپ کی خوبی و خامی کی تشہیر و اشاعت بھی آپ کے پیسے ہی طے کرتے ہیں۔کوئی چند پیسے کی خاطر اپنا گردہ بیچ دیتا ہے وہیں کوئی پیسے دے کر اپنے لیے گردہ خرید لیتا ہے۔جانبین کے محرک پیسے ہی ہیں۔کوئی ہیرا چور ہونے کے باوجود سماج کا معزز شخصیت کہلاتا ہے۔اسی سماج میں کوئی بھوک کے آزار کا سامان کرنے کے لیے کھیرا چوری کر لے تو وہ زندگی بھر چور چور کے طعنے سنتا ہے۔
ایک شاعر نے کیا خوب میرے بات کی ترجمانی کی ہے،
جب سے ہم چار پیسے کمانے لگے
اہل دنیا تو سر پر بٹھانے لگے
حیثیت سے ہیں وابستہ رشتے سبھی
یہ سمجھنے میں ہم کو زمانے لگے
عدل و ایماں، متاع دکاں ہو گئے
لوگ ان کی بھی بولی لگانے لگے
سماج کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ کتنے پارسا ہیں،کتنے خدا ترس ہیں، کتنے اچھے عالم ہیں، کتنے بڑے دانشور ہیں۔یہ دنیا بس یہ دیکھتی ہے کہ آپ کی جیب میں پیسے کتنے ہیں۔آپ کی معاشی و مالی اسٹیٹس کیا۔پیسے سے آپ کے جرم و کارنامہ،گناہ و بے گناہی،سزا و جزا، مقام و منصب،تعلق و لاتعلقی، توجہ و بے توجہی، شرافت و رذالت کا درجہ متعین ہوتا ہے۔آپ کے خلوص کی کوئی قیمت نہیں، فلوس ہے تو بڑی قمیت مل جاتی ہے۔فلوس پر خلوص کو اولیت دینے والے معدودے لوگ ہیں جو نایاب نہیں، تو کمیاب ضرور ہیں۔
سماج میں برائی جنم لینے و کرائم پنپنے کے دو راستے ہیں دونوں کا تعلق پیسے سے ہی ہے۔(۱) پاپی پیٹ کے لیے۔(۲) دولت کی ہوس پوری کرنے کے لیے۔اول الذکر اتنا برا نہیں ہے جتنا کہ ثانی الذکر۔اول پیٹ کے خندق کو بھرنے کے لیے جرم کا راستہ اختیار کرتا ہے۔مگر ثانی اپنی ہوس کا محل تعمیر کرنے کے لیے ان ہی مفلس و گمراہ لوگوں کو حصول دولت کا ذریعہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ستم بالاۓ ستم کہئے کہ سماج کی نظروں میں مجرم صرف اول ہی ٹھہرایا جاتا ہے ورنہ ثانی کے چہرے پر دولت کا اتنا رنگین مکھوٹا چڑھا ہوتا ہے لوگوں کی آنکھیں مبہوت رہتی ہیں۔وہ اصل مجرم ہو کر بھی سماج کا عزت دار شہری کہلاتا ہے۔سماج جان بوجھ کر ان کے مکھوٹے نوچنا نہیں چاہتا۔یہی money power ہے۔
بالی ووڈ کی کسی مووی کا ایک گیت ہے جس کے بول ہیں عیسی پیر نہ موسی پیر، سب سے بڑا ہے پیسہ پیر۔اس گانے کا ایک مطلب آپ زیر نظر واقعہ سے اچھی طرح جان چکے ہیں ۔
پیسے سے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے۔ پژمردہ چہرہ کا غم الگ ہوتا ہے۔مسکراتے چہرے کا رنگ بالکل مختلف۔دولت کی ریل پیل ہے تو پیری میں بھی شباب جھلکتا ہے۔ورنہ پیسے کی قلت نے کتنے عنفوان شباب پر بڑھاپا طاری کر دیا ہے۔ایک غریب حق پر ہونے کے باوجود مقدمہ ہار گیا اور بے آبرو ہو کر لوٹا اور امیر شہر نے بھری عدالت میں کالے کوٹ کے سہارے انصاف خرید لیا باعزت بری کر دیا گیا، اس کے پیچھے بھی وہی پیسہ کار فرما ہے۔اگر نباش، مکفون و مدفون کا کفن چرا کر بازار میں فروخت کرنے بیٹھا ہے اس کے پیچھے بھی پیسے کا ہی ہاتھ ہے۔کسی چودھری کے محل پر کوئی شریف زادی مجرا کرنے پر مجبور ہے تو اس کے پیچھے بھی پیسے کا ہی ہاتھ ہے۔اگر بھائی غربت زدہ ہے تو لوگ اس سے اپنا رشتہ بتانا بھی گوارہ نہیں کرتے۔دور کے امیر کبیر سے تعلق جوڑنے میں فخر سمجھتے ہیں۔یہی پیسے کی طاقت ہے۔
بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ پیسہ سے خوشیاں نہیں خریدی جا سکتیں۔مجھے اس مقولے سے بھی کلیۃ اتفاق نہیں ہے۔بلکہ پیسے سے زندگی کی نوے فیصد خوشیاں خریدی جا سکتی ہیں۔محض دس فیصد میں ہی پیسے کا زور نہیں چل پاتا۔کئی بار ہم نے تجربہ کیا، آس پاس کا منظر مشاہدے میں آیا کہ لوگ پیسے کے دم پر مشکل کو آسان کر لیتے ہیں۔یہاں تقریب ذہن کے لیے میں اپنے دو ذاتی مشاہدے پیش کرتا چلوں۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ سکندر، قارون، ہامان،شداد و فرعون کے پاس جتنی دولت تھی آج عالمی تجارت کے وسیع تر ذرائع کے باوجود بھی کسی global entrepreneur پاس نہیں۔سکندر و قارون میں سے کوئی بھی ایک پھوٹی کوڑی بھی اپنے کفن کے ساتھ نہیں لے جا سکا۔یہ سب کچھ جاننے سمجھنے کے باوجود انسان صرف پیسوں کا غلام ہے۔کیا آخرت کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں؟ایسی تقریر کرتے و تحریر لکھتے ہم لوگ بہت بھلے لگتے ہیں مگر جب اپنے ہی سماج میں شریف النفس دیانت دار ایمان دار اور عالم فاضل کو چھوڑ کر کسی فاسق معلن و فاجر بدقماش کو آپنا لیڈر بنایا جاتا ہے تب ساری ملائیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔سماج ہماری تقریر و تحریر تھوڑے وقفے کے لیے جذباتی تو ہو جاتا ہے مگر عامل نہیں ہو پاتا۔مطلب پیسے کو سلام ہے انسان تو بس بیکار ہے۔
پیسے کی ریس میں اہل مذہب کے پچھڑنے کے کئی اسباب تھے۔کچھ عقیدت مندانہ سلوگن بھی رائج رکھے گئے ہیں جو شرعی حقائق سے پرے ہیں۔ان میں دو چار باتیں اس قسم کی اڑتی یا اڑائی جاتی ہیں کہ پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے۔غربت میں عظمت ہے۔قلندر ہی سکندر ہوتا ہے۔ملنگ ہی بادشاہ ہوتا ہے۔قناعت پسندی ہی معرفت کا ذریعہ ہے۔حضور نے اپنی زندگی غربت میں گزار دی وغیرہ۔ان میں آخری بات بہت ہی خطرناک ہے بلکہ میری نظر میں یہ ذات رسالت پر ایک الزام ہے۔ہمارے صوفیا نے تو "الفقر فخری” کو اتنا رپیٹ کیا ہے کہ یقینی طور پر اہل مذہب کا ایک بڑا حلقہ اسے عین دین سمجھ بیٹھا ہے۔جب کہ فقر و تنگ دستی ایک عیب ہے۔اسے رسول کی ذات سے منسوب کرنا عشق و حقانیت کے خلاف بھی ہے۔جس پیغمبر نے "ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ” جیسی قرانی دعا کثرت سے مانگی ہو ان کی شان میں فقر جیسی باتیں روا نہیں لگتیں۔
بات سندھ کے ڈاکوؤں کی ہورہی تھی لیکن ایک دوسرے طرف چلی گئی، سو سندھ کے ڈاکوؤں کا زکر ہوتے ہی دماغ میں تاریخ کی وہ جھلک نظر آتی ہے جب دیبل کراچی کے قریب بحری قزاقوں نے مسلمان تاجروں کے بحری جہاز کو لوٹ لیا اور مسلمانوں کو یرغمال بنایا، تاریخ کے مطابق مسلمان تاجروں میں سے ناہید نامی ایک لڑکی نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا کہ
اے حجاج میری مدد کو پہنچ،جس پر حجاج نے لبیک لبیک کہا، حجاج بن یوسف نے سندھ کے حکمران راجا داہر کو خط لکھا کہ مسلمان تاجروں کو باعزت رہا کیا جائے، جس پر راجا داہر نے جواب دیا کہ وہ بحری قزاقوں کے قید میں ہیں جس پر اس کا کوئی حکم نہیں چلتا اور پھر سندھ باب الاسلام بن گیا، آج پھر پاکستانی عوام کو ایسے ہی کسے محمد بن قاسم کی تلاش ہے!
قصہ مختصر حاجیانو فاتحانہ انداز میں گھر پہنچ چکا ہے، اس موقع پر اس کا پرتپاک استقبال کیا گیا ہار پہنائے گئے، اس قدر پرتپاک استقبال دیکھتے ہوئے کئی نوجوانوں نے عید کے پیش نظر نایاب فریش کیش اور ایک عدد سستے گاڑی سمیت سستی شہرت کے حصول کیلئے کشمور جانے کی عزم کا اظہار کیا ہے ۔