اطفال محبت کی سزا جیل نہیں سولی

Spread the love

ہم ایک ایسےماحول میں سانس لے رہے ہیں جو شخصیت کو لخت لخت کرکےاعصابی تناؤ میں مبتلاکردیتےہیں۔جس میں انسان خوداپناآسیب بن جاتاہے۔خودپرسےایمان آٹھ جاتاہے۔

ہمارامعاشرہ سایوں کی بستی بن گئ ہے۔جس میں انسان اپنےسائےکوبھی دوسروں کاسایہ سمجھ کرلرزاں جاتاہے۔

مجھےفرایئڈکی لکھی ہوئ وہ بات یاد آرہی ہے کہ "جہنم جنس ہےجس کی آگ میں انسان سداجلتارہتاہے".

پچھلے دو تین سالوں میں ہم نے دیکھا کہ اس جہنم میں جلنے والے بدنصیبوں نےکتنی چھوٹی چھوٹی کلیوں کو مسل کر جنت بھیجا۔

"اطفال محبت جیسے Paedophilia کہتےہے۔ایک نفسی جنسی disorder ہےجس میں مبتلابالغ صرف بچوں سےجنسی تعلقات پیدا کرکے جنسی لذت حاصل کرتاہے”۔

یہ لوگ چنددقیقوں کی لذت حاصل کرکےاپنے غلیظ کام پہ پردہ ڈالنے کیلئے بچوں کی زندگیوں کا چراغ گھل کردیتےہیں۔

اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی نشانیاں یہ ہیں۔

بچوں اور بڑوں سےشناسائی

احترام اور شفقت کارویہ

بچوں کیساتھ ویڈیوں گیمزکھیلنااوروقت گزاری کرنا۔

بچوں کو تحائف،ببلز،کینڈی اور پیسہ پیش کرنا۔

اطفال محبت کی بیماری طاعون کی وبا کی طرح پھیلتی ہی جارہی ہے مسلسل اس میں مبتلا شخص، نابچےکو دیکھ رہا ہے نہ اس کی معصومیت کو، ہر کسی کواپنا حوس کانشانہ بنارہی ہے اورکسی لا علاج مرض کی مانند ،بچوں کس مارتے چلے جارہے ہیں۔۔۔

اس بیماری میں مبتلا اشخاص نےکئ ننھی کھلیوں کی جان لی ہیں جس میں زینب انصاری،فرشتہ مہمند،اصفہ بانوں شازیہ خالد،ماریہ اور درجنوں بچیاں شامل ہیں۔اور ابھی ابھی عایشہ کی موت بھی رپورٹ ہوئی ہے۔

بچوں کیساتھ زیادہ تر ایسے واقعات مدرسوں سکولوں اور ہاسٹلز میں پیش آتے ہیں۔اور بدقسمتی سے مذکورہ جگہوں میں جاہل لوگ استاد کی روپ میں پائے جاتے ہیں۔ایک جاہل کو استاد بنا دینا، معاشرے کو جہالت میں جھونکنے کے مترادف ہے اور ہمارے علاقے میں یہی سب ہو رہا ہے۔

یورپ کے اکثر ممالک میں اسلحےکالائسنس لینا آسان ہوتاہے۔لیکن استادی کا لائسنس لینابہت مشکل ہوتاہے۔کیونکہ انکامانناہیں کہ اسلحےمیں جتنی گولیاں ہوں اس سےایک شخص اتنی انسانوں  ھی کی جان لے سکتی ہے۔لیکن ایک نااہل استاد اتنےلوگ مارسکتےہیں جس کا اندازہ ممکن نہیں۔

ہمارے مدرسوں اور سکولوں کے اساتذہ کی اہلیت اور قابلیت کااندازہ تو ہم سب کوہیں۔

بہت پرانے وقتوں کی بات ہے جب بادشاہت ہوا کرتی تھی بادشاہ کا دربار سجا تھا بادشاہ کے تمام خاص وزیر مشیر حکیم پینٹر سبھی بیٹھے تھے پتہ نہیں بادشاہ کو کیا سوجھا اچانک پینٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا کہ مجھے ایک تصویر بنا کر دو جس میں فرشتہ اور شیطان اکٹھے نظر آئیں تھا تو یہ ایک مشکل ٹاسک مگر بادشاہ کا حکم تھا عمل کرنا ضروری تھا اب پینٹر نکل چکا تھا بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرنے اس نے پورا شہر چھان مارا ارد گرد کے تمام علاقے چھان مارے اس کو کہیں سے کوئی فرشتہ صورت انسان نظر نہیں آیا آخر کار اس کو ایک مدرسے میں ایک بچہ نظر آیا جو بہت ہی معصوم تھا واقع فرشتہ دکھائی دیتا تھا اس نے اس بچے کے ماں باپ سے اجازت لے کر اس کی تصویر پینٹ کر لی اب مرحلہ تھا شیطان کو پینٹ کرنے کا پینٹر خوار ہونے لگا اس کا دل کسی کو شیطان کہنے پر راضی نہ ہوتا تھا کیونکہ ہر انسان اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہے آخر کار اسی تگ و دور میں 40 سال گزر گئے بادشاہ کو احساس ہونے لگا کہ اب میرے مرنے کا وقت قریب ہے مجھے اپنے حکم کی تعمیل چاہیے اس نے پینٹر کو کہا کسی بھی طرح مجھے تصویر مکمل کر کے دو پینٹر کی 40 سالہ تلاش مکمل ہوئی آخر کار اسے جیل میں ایک مجرم دکھائی دیا جو کہ بہت ہی بدصورت کریہہ صورت اور بدحال تھا لمبے لمبے گندے بال بہت ہی گندا لباس جس کے جرم اور گناہوں کی سیاہی نے اس کو شیطان بنا دیا تھا پینٹر نے اس سے گزارش کی کہ مجھ سے ڈھیر ساری اشرفیاں لے لو اور مجھے تصویر پینٹ کرنے دو میں تمہیں شیطان کی صورت تصویر میں دکھانا چاہتا ہوں اس مجرم نے آفر قبول کر لی اب پینٹر تصویر بنانے بیٹھ گیا اس کو محسوس ہوا کہ سامنے بیٹھے انسان رو رہا ہے اس نے اس سے رونے کی وجہ معلوم کی تو سامنے بیٹھے انسان نے اس کو بتایا کہ میں وہی 40 سال پہلے والا معصوم بچہ ہوں جس کو تم نے فرشتہ کی صورت تصویر میں پینٹ کیا تھا اور آج بھی شیطان کے طور پر میری ہی تصویر بنا رہے ہو مجھے میرے اعمال نے فرشتے سے شیطان بنا دیا۔

کہنےکامطلب یہ ہےکہ بچے معصوم ہوتے ہیں۔انکی معصومیت کی حفاظت کریں انکے اعمال کو خوبصورت بنائیں ان کے ہر اٹھتے قدم پر کڑی نگاہ رکھیں کہ کہیں کوئی استاد قاری یارشتہ دار  ان معصوموں کو فرشتے سے شیطان تو نہیں بنا رہے۔

بچوں کیساتھ دوستانہ رویہ اپنائیں انکی Where about اور Friends circle سےخود کو آگاہ رکھیں۔

ان کی ضدکےسامنےSurrender کریں۔اگرموبائیل،موٹرسائکل یاپیسےمانگیں تو دیں۔ورنہ وہ ایسے بیماروں کےہتھےچڑسکتےہیں۔جو انکی جان تک لے سکتی ہیں۔پھرانکےلئےاحتجاج کرنا روناچیخنا اور پاکستانی بےانصاف عدالتوں سے انصاف مانگنابےجاہے۔

ہم نے بہت دیکھااورسہالیکن مزید دیکھنےاورسہنےکی طاقت نہیں۔اب وقت ہےکہ عدالتیں ظالم کوظالم کہیں اور انسانیت سے محبت کےناطے شیطان اور رحمان کی اس لڑائی میں رحمان کا ساتھ دےبے شک شیطان انکا اپنا ہی کوئی کیوں نہ ہوں۔

اطفال محبت کے مریضوں کی سزا جیل نہیں سولی ہونی چاہئے۔اورسرعام  چوکوںمیں لٹکانا چاہیے کہ نشان عبرت بنیں۔

ماریہ اورعائشہ کی تصاویر جب سامنے آتی ہیں تو آنسو کیساتھ کہتاہوں

                                                                     ان زخموں پر سے کھرنڈ اتر گئی

                                                               جسے بھولنابھی چاہوں تو بھول نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button