پہلا حصہ
اکتوبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔پتھے جڑ رہے ہیں اور تیز موسلادھار بارش ہو رہی ہے۔
سیلمان ہاتھوں میں گرم چائے کی پیالی لئے ہوئے کھڑکی کے سامنے گرم چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ٹھنڈی یخ بستہ ہواؤں نے آس پاس کے ماحول کو سرد اور مزید ٹھنڈا بنا دیا تھا۔
یہ ریڈیو پاکستان ہے۔رخسانہ بیگم سے خبریں سنئے آج دارالحکومت میں اور آس پاس کے قریبی مضافات میں دن کے چار بجے اچانک اندھیرا چھا گیا اور پورا شہر اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا۔آس پاس کے مکین اور رہائشی درود اور استغفار پڑھتے ہوئے باہر نکل آئے اور اسے قیامت کی علامت اور پتہ نہیں کیا کیا بتایا جارہا ہے۔
خیر پاکشیا کے سائنس دان اپنے کھوج میں لگ گئے ہیں اور اسے موسمی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔
خبریں ختم ہوئی رخسانہ بیگم کو اجازت دئجئے۔
سیلمان فورا چائے کا کپ وہی رکھ کے اٹھا اور بارش میں باہر نکلا۔جیسے ہی نیچھے پہنچا تو وہ بہت حیران ہوا کہ واقعی مکمل اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ سیلمان فورا گھر واپس آتا ہے۔
ایک پرسکون، سورج کی روشنی میں رہنے کا کمرہ ہے۔واہ کیا حسین سماں ہے۔ عمران صوفے پر بیٹھے ہوئے آنکھیں بند کئے اپنے خیالات میں مگن تھے۔ کھڑکی سے سورج کی روشنی اندر آتی ہے اور پرندوں کی چہچہاہٹ سنی جا سکتی ہے۔
چک چک چک ادھر آو چڑیوں دانہ چک لو۔
لیکن سلیمان بےچین نظر آتا ہے،
گھبراہٹ سے کھڑکی کی طرف دیکھتا ہے۔
صاحب آپ یہاں اپنی خیالات کی دنیا سجا بیٹھے ہے۔جبکہ باہر کی آپکو خبر نہیں۔
کیوں کیا ہوا سیلمان پاشا آل پاکشیا باورچی ایسوسی ایشن کے چیئرمین؟
صاحب باہر قیامت آگئی ہے قیامت۔
کیا کہا سیلمان قیامت ؟
عمران جلدی صوفے سے اٹھا، کیا واقعی قیامت آگئی ہے۔اور اسرافیل علیہ السلام نے صور پھونک دیا ہے؟
اور تم مجھے اب بتا رہے ہو۔
ارے صاحب اصلی قیامت نہیں ۔
تو پھر مجھے ڈرا کیوں رہے ہو کم بخت؟
سلمان: (آواز کانپتی، باہر گھورتے ہوئے) صاحب باہر اندھیرا چھایا ہوا ہے۔
اچھا تو اس میں کیا خاص بات ہے؟
رات کو اندھیرا ہوتا ہی ہے۔
مگر صاحب رات نہیں ہے۔
بلکہ دن کے تین بج رہے ہیں اس وقت۔
عمران…ہاں یار واقعی باہر اندھیرا ہے۔
بارش ہو رہی ہے… اور مکمل اندھیرا ہے۔
وہی تو میں کہہ رہا ہوں۔
عمران:(ایک ابرو اٹھا کر، قہقہہ لگاتے ہوئے)
سیلمان تم کیا بات کر رہے ہو؟
باہر روشنی ہے۔
سورج نکل چکا ہے۔
آسمان صاف ہے!
سلیمان: (اپنی سیٹ پر بے چینی سے سر ہلاتے ہوئے) صاحب ہر وقت مذاق اچھا نہیں ہوتا۔
نہیں نہیں… آپ نہیں سمجھتے عمران صاحب مجھے کچھ عجیب محسوس ہو رہا ہے… کچھ غلط۔
میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اسے دیکھا، جیسے… پوری دنیا ایک سیکنڈ کے لیے سائے میں ڈھکی ہوئی ہو۔
عمران: (ہنستے ہوئے) کیوں کس کو دیکھا کیا بدروح کو دیکھا ہے؟
تم ٹھیک تو ہو سیلمان؟ آپ ایسا بول رہے ہیں جیسے یہ آدھی رات ہے، اور ہم طوفان کے بیچ میں ہیں۔ بس تھوڑی سی بارش ہے، بس۔اور کچھ نہیں۔
سیلمان: (گھبرائی ہوئی نظر کے ساتھ، اس کی آواز بلند ہوئی)
نہیں! آپ کو عجیب نہیں لگتا صاحب! کہ دن کے وقت اندھیرا ہے۔ میں کھڑکی کے پاس کھڑا تھا، اور بارش ہو رہی تھی اور پھر اچانک اندھیرا چھا گیا— بس… اس کالے بادلوں نے سب کچھ کالا کر دیا۔
آپ باہر کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔
کوئی روشنی نہیں، کوئی شکل نہیں۔
بس… اندھیرا۔ مکمل اندھیرا۔
حتی کہ مجھے دانش منزل بھی صیح نظر نہیں آرہی تھی۔
عمران: (اطمینان سے)
سلیمان، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں، یہ دن کی روشنی ہے۔ کوئی اندھیرا نہیں ہے۔ کوئی طوفان نہیں ہے۔ آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ بس تھوڑا موسم گھمبیر ہے۔
ایسا تو ہوتا رہتا ہے آخر اکتوبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔
سیلمان:(عمران کا بازو پکڑ کر سرگوشی کرتے ہوئے)
میں نہیں جانتا صاحب، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے۔ جیسے کچھ باہر کچھ عجیب سا ہے، انتظار کر رہا ہوں ہمارا۔ اندھیرا… یہ آ رہا ہے. یہ پہلے ہی یہاں ہے۔ کیا آپ اسے نہیں دیکھ سکتے؟
کہی کافرستان کے شاہ گل نے تو پھر سے ہم پر ٹونہ ٹوٹکا نہ کر دیا ہوں؟
عمران:(سکون سے)
سلیمان، تم کسی چیز سے کام نہیں لے رہے ہو۔
اور وہ ناچیز سی چیز ہے،عقل۔
موسم ٹھیک ہے۔ بس تھوڑی سی بارش ہوئی ہے۔ یہ اندھیرا نہیں ہے، اور کچھ بھی انتظار نہیں کر رہا ہے.
آپ کو سانس لینے کی ضرورت ہے، ٹھیک ہے؟
اور شاہ گل کو میں نے وہ سبق سیکھایا ہے کہ اب وہ پاکشیا کیطرف پیٹھ کرکے سوتا ہوگا۔
سیلمان: (آنکھیں پھیلی ہوئی ہیں، آواز ٹوٹ رہی ہے)
لیکن… لیکن اگر بارش نہ ہو تو کیا ہوگا؟
اگر یہ کچھ اور ہے تو کیا ہوگا؟
اگر کافرستان سے جن آ گئے تو؟
عمران: (اسے ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہوئے)
ارے، ارے، پرسکون ہو جاؤ. سب ٹھیک ہے۔ یہ صرف ایک عام دن ہے۔ آپ محفوظ ہیں، ٹھیک ہے؟ بارش میں کچھ بھی غلط نہیں ہوتا۔
بلکہ بارش تو اللہ کی رحمت ہے۔
بارش میں اللہ اپنے بندے کی ہر دعا قبول کرتا ہے۔
سلیمان اب بھی کھڑکی سے باہر گھور رہا ہے، اس کا خوف ابھی کم نہیں ہوا ہے، جبکہ عمران اس کے پاس بیٹھا ہے، تسلی دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ کمرہ مکمل خاموش ہے۔ سیلمان اور عمران ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پہلی گفتگو کے بعد پرسکون ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔اچانک فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ یہ ایک انجان نمبر ہے صاحب ۔ سیلمان نے تجسس سے اسے دیکھا، پھر جواب دیا۔سیلمان: (فون اٹھاتے ہوئے اس کی آواز قدرے ہچکچائی)
ہیلو؟
سر سلطان کی آواز: (مستند، پرسکون)
سلیمان، میں سلطان بول رہا ہوں۔ عمران سے کہنا فورا میرے دفتر آئے ابھی کے ابھی ضروری کام ہے۔ عمران کو کہو آپ فوراً میرے دفتر آئیں۔ کچھ ضروری مسئلہ ہے جس پر ہمیں بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے۔
سیلمان:(گھبرا کر عمران کی طرف دیکھتے ہوئے)
اوہ، سلطان صاحب، کیا سب ٹھیک ہے؟
کیا ہو رہا ہے؟
سر سلطان کی آواز:(مضبوطی سے)
یہ سوالات کا وقت نہیں ہے۔ بس جتنی جلدی ہوسکے تم بھی میرے آفس آجاؤ۔
میں اگلے 30 منٹ تک آپکا منتظر رہوں گا۔
سلیمان: (توقف کرتے ہوئے، ابھی تک غیر یقینی)
لیکن سر سلطان میں اس وقت عمران کے ساتھ ہوں، اور…
سر سلطان کی آواز:
سیلمان، یہ وقت بحث کے لیے نہیں ہے۔ اب میرے دفتر آؤ۔ آپ عمران کو باتیں بعد میں سمجھا سکتے ہیں۔ دیر نہ کریں۔
سیلمان:(تھوڑا گھبرا کر عمران کی طرف دیکھتے ہوئے جو فکر مند نظر آرہا ہے)
ٹھیک ہے سلطان صاحب۔ ہم جلد ہی وہاں ہوں گے۔
سر سلطان کی آواز:(اب قدرے نرم)
اچھا اور یقینی بنائیں کہ عمران وقت پر پہنچے۔ یہ اہم ہے۔
سلیمان:(ایک لمحے کے لیے رک کر درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے)
جی ہاں، سلطان صاحب۔ عمران صاحب وقت پر آئیں گے۔
سر سلطان کی آواز: (مضبوط لہجے کے ساتھ ختم ہونے والی کال)
جلد ہی ملیں گے۔
—
سلیمان نے فون نیچے رکھ دیا، اس کا چہرہ الجھن اور عجلت سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے عمران کی طرف دیکھا جو اب پوری طرح چوکنا ہے۔
عمران:(فکرمند)
فون کس مسئلے کے بارے میں کیا تھا؟ سلطان صاحب سنجیدہ لگ رہے ہیں۔ کیا کہہ رہے تھے؟
سلیمان: (سٹائل سے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے)
سر سلطان چاہتے ہے کہ آپ فوراً اس کے دفتر جائیں۔ کہتے ہیں کہ کچھ ضروری کام ہے، کچھ ضروری مسئلہ ہے جو آپکو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
عمران:(اپنی جیکٹ پکڑ کر)
بہتر ہے کہ ہم آگے بڑھیں۔ سر سلطان بلاوجہ کال کرنے والے آدمی نہیں ہے۔ لیکن یہ شادی کس کی ہے جس کا اس نے ذکر کیا ہے؟
سلیمان: (گھبرا کر)
میں نہیں جانتا صاحب، لیکن یہ اچھا نہیں لگتا.کس اس عمر میں سر سلطان دوسری شادی کرتے پھیرے۔ہمیں کسی بھی چیز کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
عمران: (کار کی چابیاں پکڑتے ہوئے)
چلو چلتے ہیں سیلمان۔
ہم راستے میں اس کا پتہ لگائیں گے۔
کہ کس کی شادی ہے۔کس کا نکاح ہے۔اور ہم کس کی طرف سے باراتی بن کے جائینگے؟
مگر صاحب میں کیا کروں گا آپکے ساتھ جا کر؟
ارے احمق میگا مارٹ سے باورچی خانے کا سامان نہیں لو گے؟
کل ہی تم کہہ رہے تھے کہ سبز چائے اور الائچی ختم ہو گئی ہیں؟
اوہ! ہاں چلو ٹھیک ہے۔
سیلمان اور عمران تیزی سے کمرے سے باہر نکلتے ہیں، سر سلطان کے دفتر کی طرف جاتے ہیں۔
سر سلطان کا دفتر۔ کمرہ میں مدھم روشنی ہے، اور بیچ میں ایک بڑی میز پڑی ہے، کاغذی کارروائیوں اور چند بند فائلوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ کمرہ بہت بھاری اور فرنیچر سے لدا ہوا محسوس ہوتا ہے، مہنگے لیکن جدید فرنیچر سے بھرا ہوا ہے۔ سر سلطان میز کے پیچھے بیٹھے، ریشمی نیلے پردوں کو ہٹا کر،
کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے جیسے سوچوں میں گم ہو۔
دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے،
کیا میں اندر آ سکتا ہوں سر؟
اور عمران اندر داخل ہوتا ہے،
اپنے قدم احتیاط سے اٹھاتے ہوئے، —
عمران: (اندر چلتے ہوئے، دروازہ آہستہ سے بند کرتے ہوئے)
آپ نے مجھے بلایا سر سلطان؟
سر سلطان: (مڑے بغیر، اس کی آواز پست اور پریشان)
ہاں عمران بیٹے۔ بیٹھو۔ ہمیں بات کرنی ہے۔
عمران:(سر سلطان کے سامنے بیٹھتے ہے، ان کے سنجیدہ رویے کو دیکھ کر)
کیا ہو رہا ہے جناب؟
آپ فون پر کچھ ارجنٹ لگ رہے تھے۔
سر سلطان:(عمران کی طرف منہ کرتے ہوئے اس کا تلخ لہجہ)
کچھ ہے… کچھ عجیب ہو رہا ہے۔
مجھے آپ کو تفصیل سے بتانے کی ضرورت ہے۔
عمران: (سر ہلاتے ہوئے)
سر بتائیےایسی کیا خاص بات ہے؟
آپ اس قدر کنفیوز کیوں ہے؟
سر سلطان: (ڈیسک پر موجود فائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)
اس فائل کو کھولیں۔
اس میں ایکسٹو کی کچھ تصاویر ہیں —
وہ ایک لڑکی کیساتھ موجود ہے۔جو کچھ پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔
یہ تصویریں ایک ہوٹل میں لی گئی تھیں۔
اور کسی نامعلوم انسان نے مجھے بجھوائی ہے۔
عمران: (ایک ابرو اٹھا کر، متجسس، فائل اٹھاتا ہے) ایکسٹو؟ ایک ہوٹل میں لڑکی کیساتھ؟
سر سلطان:(اس کی آواز قدرے متزلزل)
ذرا دیکھو تو ۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
عمران: (فائل کو پلٹتے ہوئے، تصویریں دیکھتے ہی اس کی آنکھیں پھیل گئیں)
ایک منٹ انتظار کریں۔ یہ… یہ وہ ہے۔ میں نے اسے پہلے دیکھا ہے۔ لیکن یہ تصاویر، وہ عام نہیں لگتی ہیں. وہ پوز کر رہی ہے، لیکن اس میں کچھ گڑبڑ ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ کوئی حسین ماڈل ہے۔
سر سلطان: (آگے جھکتے ہوئے، اس کا اظہار تناؤ)
عمران، مجھے آپ کی ضرورت ہے کہ آپ اس لڑکی کا پیچھا کریں۔اس کے بارے میں سب کچھ معلوم کریں۔ وہ کہاں رہی ہے، وہ کس کے ساتھ رہی ہے… سب کچھ۔ وہ کسی بڑی چیز سے جڑی ہوئی ہے، اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ کتنا گہرا راز ہے۔
عمران:(ابھی تک تصاویر دیکھ رہے ہیں، یقین نہیں آیا)
کیوں؟ اس کے بارے میں کیا اہم راز ہے؟
مجھے لگتا ہے کہ یہ ایکسٹو کی دوست ہے۔
یا ہو سکتا ہے گرل فرینڈ ہو۔
سر سلطان: (تکلیف سے اس کی آواز قدرے پھٹی ہوئی) وٹ ناننسس عمران یہ مذاق کی بات نہیں ہے۔
میں ٹکڑوں کو ایک ساتھ رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ جتنا میں اس زمین کو کھودتا ہوں، اتنی ہی چیزیں غلط ہوتی جاتی ہیں۔ وہ ان جگہوں پر رہی ہے جہاں اسے نہیں ہونا چاہئے۔ ان لوگوں سے ملاقات کر رہی ہے جنہیں وہ نہیں جانتی تھیں۔
وہ… کچھ چھپا رہی ہے۔
میں اسے محسوس کر سکتا ہوں۔
عمران:(فوٹو نیچے رکھتا ہے، اس کی نظریں تیز)
یہ معنی نہیں رکھتا۔
آپکو کیوں لگتا ہے کہ یہ لڑکی کوئی راز رکھتی ہے؟ آپ کو اتنا یقین کیوں ہے؟
کیا معلوم وہ ایکسٹو کی دوست ہو۔
سر سلطان:(گہری آہیں بھرتے ہوئے دراز سے شادی کا کارڈ نکال کر عمران کے حوالے کیا)
اچھا اب یہ دیکھو۔
عمران:(کارڈ کو باریک بینی سے دیکھتے ہوئے)
یہ کیا ہے؟ شادی کی دعوت؟
سر سلطان: (سر ہلاتے ہوئے، آنکھیں بند کرتے ہوئے)
ایکسٹو کی شادی ہے۔
عمران: (الجھ کر) سر سلطان آپ مجھ غریب پر کیوں بمب پھوڑ رہے ہے؟
لیکن… ایکسٹو نے منگنی بھی نہیں کی۔ میں نے کبھی اس کا کسی سے ذکر نہیں سنا۔
نا منگنی نا نکاح اور چٹ سے شادی کارڈ آ بھی گیا؟ سر سلطان:(دانت پیستے ہوئے، جبڑے سے بولتے ہوئے)
میں نے بھی یہی سوچا تھا۔ لیکن یہ کارڈ… یہ جھوٹ نہیں بول رہے۔ یہ ایکسٹو کی شادی کا دعوت نامہ ہے، ان لوگوں کو بھیجا گیا جن پر میں بھروسہ کرتا ہوں۔ پھر بھی، میں نے اسے کبھی کسی کے ساتھ نہیں دیکھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، عمران۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے احساس سے کہیں زیادہ خطرناک چیز سے جڑا ہوا ہے۔
مجھے لگتا ہے یہ لڑکی ایکسٹو کو بےوقوف بنا رہی ہے۔
عمران: (توقف کرتے ہوئے، اس کے دماغ میں بجلی دوڑ رہی ہے)
تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے تلاش کروں؟ لیکن کیوں… یہ عجلت کیوں؟
پہلے شادی تو ہو لینے دیں۔
سر سلطان: (ایک گہری آہ کے ساتھ، اپنی کرسی سے ٹیک لگا کر، اس کا چہرہ مایوسی سے بھرا ہوا)
کیونکہ اگر ہم ابھی اس کا پتہ نہیں لگاتے ہیں تو… ہم بہت دیر کر سکتے ہیں۔ کچھ ہو رہا ہے۔
اور ایکسٹو اس بھنور کے مرکز میں ہے۔
وہ لڑکی کچھ چھپا رہی ہے –
ایسی چیز جو سب کچھ بدل سکتی ہے۔
اور ہمارے ملک پاکشیا کے اہم ترین انسان سے اہم راز بھی اگلوا سکتی ہے۔
عمران:(مٹھی بند کرتے ہوئے، آہستہ سے سر ہلاتے ہوئے) سر کیا آپ ایکسٹو کو بچہ سمجھتے ہے؟ بہرحال میں سمجھ گیا میں اسے ڈھونڈ لوں گا۔ لیکن ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے سلطان سر۔ اگر وہ لڑکی کسی سنگین چیز میں ملوث ہے، تو ہم اندھے تو نہیں ہو سکتے نہ۔
سر سلطان: (اس کا لہجہ گہرا ہوتا ہے، اس کی آواز بمشکل سرگوشی کے نکلتی ہے)
ہوشیار رہو۔ وہ جس کے ساتھ بھی ہے وہ بھی ایکسٹو ہے، جو بھی وہ منصوبہ بنا رہی ہے، یہ صرف ایک شادی سے زیادہ ہے۔ مجھے یہ ایک انڈر کور مشن لگتا ہے۔ اور ہم غلطی کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
عمران مڑتا ہے، ایک پرعزم مقصد کے ساتھ دفتر سے نکلتا ہے، سر سلطان اسے جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے، اس کے چہرے پر پریشانی چھائی ہوئی تھی۔
رک جاو رک جاو عمران بیٹے۔
کیوں سر کیا ہوا اب؟
اپنی پریشانی میں بھول ہی گیا تھا۔
یہ لو شادی کا کارڈ۔
سر اب کیا یہ آپکی شادی کا کارڈ ہے؟
پہلے کارڈ پڑھو۔۔
اوہ! پاکشیا کے نامور ہیرو بین الاقوامی فٹ بالر ذیشان نصر کی شادی ایکریمیا میں اگلے ہفتے ہو رہی ہے۔اس کارڈ پے تو ہمارے نام لکھے ہیں۔
ہاں میں نے تم لوگوں کے نام لکھے ہیں۔
بظاہر شادی کا کارڈ مجھے آیا تھا۔مگر پاکشیا کے حالات کی وجہ سے میں ملک سے باہر نہیں جا سکتا۔
ٹھیک ہے سر میں اگلے دن ایکریمیا اپنی ٹیم کیساتھ روانہ ہو جاوں گا۔
فلحال یہ شادی کا معاملہ سلجھاتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔
عمران کی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔
ارے تنویر!
تنویر: ہیلو عمران۔ کیا حال ہے
عمران: سنو، کیا تم مجھ پر کوئی احسان کر سکتے ہو؟ پلیز جولیا کو اس کی گھر سے اٹھاؤ اور صفدر کو بھی ساتھ لیتے آنا۔ ایک بار جب آپ یہ کام کر لیں تو مجھ سے محبت شادی ہال کے قریب کافی شاپ پر ملیں۔ میں پہلے ہی سے یہاں انتظار کر رہا ہوں۔
تنویر: سمجھ گیا! میں ابھی جولیا کے پاس جاؤں گا اور صفدر کو بھی ساتھ لے آوں گا۔ جلد ہی کافی شاپ پر ملتے ہیں۔
عمران: شکریہ، تنویر! جلد ملیں گے۔
کال ختم۔
شکر ہے یار تم لوگ وقت پر آگئے۔
چلو میں تم لوگوں کو گرم گرم کافی پلاتا ہوں۔
پھر تنویر کے رشتے کے لئے جانا ہے۔
کافی شاپ کا دروازہ کھلتا ہے، اور عمران، تنویر، اور جولیا اندر چلے جاتے ہیں۔ ہلکی ہلکی چہچہاہٹ اور تازہ پکی ہوئی کافی کی خوشبو کے ساتھ اندر کافی شاپ کا ماحول آرام دہ ہے۔
عمران: (خوشی سے)
یہ جگہ اچھی لگتی ہے، ہہ؟ آئیے کھڑکی کے پاس سے ایک میز پکڑیں۔میرا مطلب ہے وہاں بیٹھتے ہیں۔
تنویر: (چاروں طرف دیکھتے ہوئے)
جی ہاں، یہ تو کامل جگہ ہے۔ یہ سائیڈ پرامن ہے۔
وہ ایک میز پر اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں۔ جولیا، تاہم، تھوڑا سی مشغول نظر آ رہی ہے، اس کی آنکھیں گھبراہٹ سے ادھر ادھر کافی شاپ میں گھوم رہی تھی۔
جولیا: (اس کی سانسوں کے توازن بگڑ گیا)
نہیں… یہ نہیں ہو سکتا…
بیٹھتے ہی جولیا کی نظریں کیفے کے ایک کونے پر پڑیں۔ وہ جم سی جاتی ہے۔ ایک قریبی میز پر، ایکسٹو سر شاندار عورت کے ساتھ بیٹھے ہیں، کافی کا گھونٹ پی رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی جولیا کا چہرہ پیلا پڑ گیا، اس کی سانسیں تیز ہو گئیں۔
جولیا: (خود سے سرگوشی کرتے ہوئے)
نہیں… وہ یہاں اس کے ساتھ کیوں ہے؟ اب کیوں؟ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔
سر ایکسٹو ایک عورت کیساتھ؟