ہمارے اقبال سب کے اقبال علامہ محمد اقبال

Spread the love

از قلم
نورین خان
پشاور

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اردو کے عظیم شاعروں میں سے ایک عہد ساز شخصیت علامہ محمد اقبال اردو اور فارسی میں اپنی شاعری کے لیے مشہور ہیں۔انہیں اسلام میں سیاسی اور مذہبی فلسفے پر ان کے کاموں کا بہت زیادہ کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے۔علامہ محمد اقبال کی زندگی کی تاریخ بہت دلچسپ ہے اور علامہ محمد اقبال کی سوانح حیات کے عنوان سے یہ معلومات آپ کو ان کی زندگی کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرے گی۔
علامہ اقبال ایک مثالی ادیب اور شاعر تھے جو 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔آپکے والد کا نام شیخ نور محمد تھا اور آپ نے ابتدائی تعلیم مولوی میر حسن سے حاصل کی۔آپکے دادا کشمیری پنڈت تھے جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا۔آپکے آباؤ اجداد کشمیر میں رہتے تھے، لیکن جب سکھوں نے کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کا کہا تو وہ برطانوی ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں چلے گئے۔کشمیر کے ساتھ ان کے روابط کے بارے میں بہت کچھ ان کی تحریروں سے ظاھرہوتا ہے۔علامہ اقبال کا تعلق مذہبی عقائد کے حامل خاندان سے تھا۔آپکے والد شیخ نور محمد درزی تھے اور انہوں نے کبھی کوئی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی۔آپکے والد ایک سادہ انسان اور اللہ کے ولی تھے بہت ہی مذہبی گھرانہ تھا۔1893ء تا 1895ء: سکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کی۔
1887ء: گورنمنٹ کالج لاہور (جی سی) سے عربی اور فلسفے میں گریجوایشن (بی اے)میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ علامہ کو عربی میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے پر جمال الدین گولڈ میڈل اور انگریزی میں بھی گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔
1899ء: گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ پنجاب بھر میں اول پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ اورینٹل کالج لاہور میں عربی خواں (ریڈر) کے طور پر شمولیت اختیار کی۔

1900ء: انجمن حمایتِ اسلام (لاہور) کی سالانہ تقریب میں اپنی پہلی نظم "نالہء یتیم” پڑھی۔
1901ء: آپ کی نظم "ہمالہ” ، مجلہ "مخزن” میں شائع ہوئی۔ اسی برس اسسٹنٹ کمشنر کا امتحان دیا لیکن طبی بنیادوں پر انتخاب نہیں ہوسکا۔
1903ء: گورنمنٹ کالج لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے۔ ان کی پہلی کتاب (نثر) "علم الاقتصاد” شائع ہوئی۔
1905ء: اعلیٰ تعلیم کے حصول کے برطانیہ روانہ ہوئے۔
1907ء: میونخ یونیورسٹی جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا؛ "ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقا” (The Development of Metaphysics in Persia)
1907ء تا 1908ء: یونیورسٹی آف لندن میں پروفیسر آف عریبک تعیانت ہوئے۔
1908ء: لندن سے بار-ایٹ-لاء کی ڈگری حاصل کی۔ اسی برس ہندوستان واپس لوٹے اور 22 اکتوبر 1908ء کو وکالت شروع کردی۔ جزوقتی طور پر فلسفے اور ادب کے پروفیسر بھی خدمات سرانجام دیں۔
1911ء: لاہور میں اپنی شہرہ آفاق نظم "شکوہ” لکھی اور پڑھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلدفے کے شعبے میں بطور پروفیسر تقرری۔
1912ء: اپنی نظم "جوابِ شکوہ” لکھی۔
1913ء: مڈل سکول کے طلبہ کے لیے  درسی کتاب "تاریخِ ہند (ہسٹری آف انڈیا)” لکھی۔
1915ء: علامہ اقبال کی طویل فارسی نظم "اسرارِ خودی” شائع ہوئی۔ اسی برس گورنمنٹ کالج لاہور سے پروفیسری کی نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔
1918ء: "اسرارِ خودی” کے بعد ان کی دوسری فارسی نظم "رموزِ خودی” شائع ہوئی۔
1920ء: ان کی فارسی نظم "اسرارِ خودی” کا انگریزی ترجمہ آر اے نکلسن نے "Mysteries of Selflessness” کے نام سے کیا۔ انھوں اسی برس کشمیر کا دورہ کیا اور سری نگر میں ایک مشاعرے میں اپنی مشہور نظم "ساقی نامہ” پڑھی۔
1923ء: یکم جنوری 1923ء کو برطانوی شاہ کی جانب سے "سر” (نائٹ ہُڈ) کے خطاب سے نوازا گیا۔ آپ کا فارسی کلام "پیامِ مشرق” شائع ہوا۔ علامہ اقبال نے یہ کلام گوئٹے کے West-Ostlicher Divan کے جواب میں لکھا۔
اس کے علاوہ اس نے غزالی، ابن سینا، ابن عربی اور رومی کے حالات کا مطالعہ کیا۔
یہ ایک ایسے خواب دیکھنے والے کی زندگی کی کہانی ہے جس نے برصغیر کے لوگوں کے لیے ایک علیحدہ اسلامی ملک پاکستان کا خواب دیکھا جس پر انگریزوں کی حکومت تھی۔قارئین، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک بصیرت رکھنے والا ہم سے زیادہ مختلف تو نہیں ہوتا،مگر دوسرے لوگوں اور بصیرت رکھنے والے میں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک وژن اور ایک واضح ہدف رکھتا ہے۔ایک واضح مقصد وہ ہے جو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔
اقبال نے بھی سیاست میں حصہ لیا۔انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔انہیں پاکستان کی تخلیق کا خیال آنے کا سہرا بھی دیا جاتا ہے۔انہیں عموماً علامہ اقبال کہا جاتا ہے۔ علامہ کا مطلب ہے عالم۔چونکہ علامہ اقبال نے انگلینڈ اور جرمنی میں تعلیم حاصل کی۔ مگر ان کی بنیادی توجہ سیاست، مذہب، معاشیات، فلسفہ اور تاریخ پر تھی۔ انہوں نے متعدد نظمیں بھی لکھیں اور اپنی شاعرانہ تصانیف جیسے رموزِ بیخودی، اسرارِ خودی اور بانگِ درہ اس کے لیے مشہور ہیں۔ انہیں افغانستان اور ایران میں بڑے اعزاز سے یاد کیاجاتا ہے اور انہیں پیار سے اقبال لاہوری کہا جاتا ہے جس کا مطلب لاہور کا اقبال ہے۔
تاہم اگر ہم ان کی شاعری کی بات کریں تو یہ کہنا ضروری ہے کہ علامہ اقبال نے اردو زبان میں جو شاعری کی اس کی مثال نہیں ملتی۔اسی لیے انہیں اردو شاعری کا باپ اور پاکستان کا قومی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر نظم اور شاعری کی بات ہو تو اقبال کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاعری ان کے بغیر ادھوری ہے۔وہ شاعری کے بادشاہ اور لوگوں کے دلوں کے شہنشاہ تھے اور رہیں گے۔علامہ اقبال نے دنیا بھر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے بہت مضبوط حامی، انہوں نے اس مقصد کی وکالت کی کہ اسلام کی روحانی اور سیاسی بحالی بہت ضروری ہے۔انہوں نے ہندوستان میں لیکچرز کا ایک مشہور مجموعہ پیش کیا جسے اسلام میں مذہبی فکر کی تعمیر نو کے نام سے مرتب اور شائع کیا گیا۔اقبال نے محمد علی جناح کے ساتھ قریبی تعاون کیا اور جناح صاحب کا ساتھ دیا۔آپ سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔انہیں پاکستان کے قومی شاعر کے طور پر اعزاز حاصل ہے اور ان کی یوم پیدائش (9 نومبر) کو پاکستان میں تعطیل ہوتی ہے۔
ان کی زیادہ تر شاعری فارسی میں ہے اردو کے مقابلے میں۔انکے کام بنیادی طور پر بنی نوع انسان اور موجودہ معاشرے کی بہتری کے عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں قیام کے دوران حقیقی مغربی زندگی کے واقعات سے سبق حاصل کی۔وہ مغرب کو بتانا چاہتے تھے کہ ان کا مادہ پرستانہ نظریہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا اور وہ مشرق سے سبق حاصل کریں اور حقیقی خوشی حاصل کرنے کے لیے روحانیت سے استفادہ کریں۔ وہ مشہور مغربی مفکرین جیسے فریڈرک نطشے، گوئٹے اور ہنری برگسن سے بہت متاثر تھے۔ اس سے انکار نہیں کہ علامہ محمد اقبال نے اپنی نظموں کے ذریعے قوم کو آگاہ کیا اور سوچنے یا آزاد ہونے کی ترغیب دی۔ وہ ایک نوجوان شاعر تھے۔یوں تو انہوں نے دنیا بھر کے لوگوں سے خطاب کیا اور نظمیں سنائیں، لیکن ان کی امیدیں اور تمنائیں زیادہ تر مسلمانوں سے وابستہ تھیں۔انہوں نے مسلم نوجوانوں میں خودی کے احساس کو بیدار کرنے کی ذمہ داری لی اور انہیں اپنے ماضی میں جھانکنے کی دعوت دی کہ مسلمان ایک آزاد اور فاتح قوم ہے۔ اقبال اسلام کی محبت سے دلوں کو سرشار کرتے رہےاور روح کو ہمہ وقت بیدار رکھتے تھے۔
دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرے اور آگے بڑھے لیکن جو شخص خواب دیکھتے اور پھر انہیں حقیقت میں لاتے ہے اسے کبھی نہیں بھلایا جائے گا جیسا کہ ارسطو، قائداعظم، ابراہم لنکن وغیرہ دنیا ایسے ہی باکمال لوگوں سے بھری پڑی ہے۔
اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں پختگی اور حقیقت پر مبنی خیالات، بصارت اور تخیلات کے بارے میں مفید معلومات موجود ہیں۔اس لیے آپ سے التماس ہے کہ ایسے مثالی ادیب کے اشعار اور نظموں سے استفادہ کریں اور ساتھ ہی میں پاکستان کے نوجوانوں کو بھی نصیحت کرتی ہوں کہ ایک واضح ہدف اور متعین ہدف کا انتخاب کرتے ہوئے بصیرت اختیار کرنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کامیاب ہو سکیں ۔
اس عظیم شاعر نے 21 اپریل 1938 کو 61 سال کی عمر میں وفات پائی۔
ستّر ہزار افراد کے شرکت سے نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد انہیں لاہور میں بادشاہی مسجد کے سامنے سپرد خاک کیا گیا۔

۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button