*فلسطین اور امت مسلمہ *

تحریر:عمار جیلانی

Spread the love

ہر جگہ فلسطین کی آواز گونج رہی ہے یہ فلسطین
1947ء میں اقوامِ متحدہ نے عرب کے سینے میں اسرائیلی خنجر گھونپ کر فلسطین کے دو ٹکڑے کردیئے اور ’’اسرائیل‘‘ نامی ناگ قبلۂ اول کے خزانے پر اپنا پھن پھیلا کر قابض ہوگیا۔
ارضِ فلسطین پر قابض ہونے کے بعد ’’اسرائیل‘‘ نے آگ و خون کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ تاحال جاری ہے
گذشتہ کئی دنوں سے فلسطین کے شہر غزہ میں اسرائیل کی بربریت کا سلسلہ جاری ہے،حماس کے حملہ کو بنیاد بناکر غزہ کو تباہ وبرباد کرنے اور نہتے مسلمانوں کو شہید کرنے کے ناپاک کھیل میں اسرائیل مصروف ہے،دنیا کے ظالم ممالک اسرائیل کی اس حیوانی کاروائی میں شریک اور معاون ہیں،جنہیں خون ِ انسانی کو بہانے میں لطف آتا،معصوم بچوں کو بلکتا دیکھ کر ان کی شیطانی روحیں خوش ہوتی ہیں،بے قصور عورتوں پر ظلم ڈھاکر انہیں اطمینان نصیب ہوتا ہے،نہتے نوجوانوں کو شہید کرکے ان کی آنکھیں ڈھنڈی ہوتی ہیں،اور علاقوں کو تہس نہس کرنے ،ہنستے کھیلتے شہروں کو ویران کرنے میں ان ظالموں کو خوب دلچسپی رہتی ہے۔
۔فلسطین مسلمان اپنی آزادی حق کی جنگ لڑ رہے ہیں ان کی اپنی تنظیمیں ہیں فلسطینی مسلمانوں کی جماعت حماس ہے جس نے اسرائیل پر اپنی سرزمین پر پیش قدمی کی دشمنوں پر تاپڑ توڑ حملے کئے جس سے کچھ علاقے اسرائیل کے ہاتھ سے نکل گئےتاریخی اعتبار سےاسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین بار بار فوجی تنازعات، خاص طور پر اسلام پسند گروپ حماس کے ساتھ، جو پی اے کو بھی مسترد کرتے ہیں، کے نشانہ بنے ہیں۔ 2007 میں، حماس نے غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی سے حاصل کیا، جو اب مغربی کنارے تک محدود ہے۔2023میں حماس کے حملے کے بارے میں کچھ لوگ اسرائیل کے حق میں اپنے بیان جاری کرنے لگے ۔سوشل میڈیا ٹویٹر سے پیغامات جاری ہوئے۔نہایت افسوس کی بات ہے ٹوئیٹر پر حال ہی میں، ڈولکون اور عالمی اویغور کانگریس نے فلسطینی اسرائیل
تنازعہ میں اضافے کا الزام حماس کے حملوں پر لگایا ہے،اسرائیل کے قبضے
اور فلسطینی مسلمان بھائیوں کے خلاف نسل پرستی کو مکمل طور پر نظر انداز
کیا ہے،یہ واقعی شرمناک ہے !اس بیان جاری کرنے سے ڈولکون بیرون ملک کی نمائندگی کرتا ہے ،لیکن جب امریکی اور اسرائیلی فلسطینی مسلمانوں کو ان کے
گھروں سے نکال دیتے ہیں ،تو وہ فلسطین کی مذمت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ
ڈولکون ایک سفید فام سامراج کے روپ میں جلوہ فروز ہے جسے امریکی کانگریس ڈولکون
سطحی طور پر چین کی ایغوروں کے خلاف نسل کشی کی مخالفت کرتاہے
،لیکن اب وہ فلسطین پر اسرائیل کے حملے کی حمایت کررہے ہیں ۔ ایک سچا
مسلمان اپنے ساتھی سے اتنی نفرت نہیں کرے گا۔ جب ڈولکون اور ورلڈ ایغور
کانگریس نے ان الفاظ کو شائع کیا تو کیا انہوں نے دوسرے مسلمانوں کے
جذبات پر غور کیا؟ ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت سے شاید ڈولکون معاونت کا طلب گار ہو۔کیونکہ امریکہ اسرائیل کا چولی دامن ساتھ یہودی یہودی کا ساتھی ہے جبکہ مسلمان مسلمان کا بھائی وہ اپنے ہی بھائیوں ا
سے کیسے غداری کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے پروپیگنڈہ ٹول کے طور پر ،
ڈولکون کو صرف امریکہ کی بات ماننی چاہئے !مجھے ڈولیکون کا نے اس بار عوامی طور پر اپنے رویے کا
اظہار کیا، جس سے سب کو یہ احساس ہو گیا کہ عالمی اویغور کانگریس کے
لیے ان کا پچھلا اعتماد اور حمایت کتنا مضحکہ خیز تھا۔
ایک طویل وقت کے لئے ڈولکون کی زیرقیادت عالمی اویغور کانگریس
مغربی سیاسی نظریات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے۔ وہ
سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری سے مزید حمایت حاصل کرنے کے لیے
انھیں اپنے سیاسی موقف کو نرم کرنا چاہیے۔ لیکن یہ بات ناقابل تردید ہے کہ
عام ایغور مسلمان ان سیاسی عہدوں کو اجنبی اور ناقابل قبول محسوس کریں
گے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے معاملے پر ڈولیکون اپنے ہم وطن مسلمانوں کو
چھوڑ کر امریکہ اور مغرب کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا، بالآخر مسلمان بھائیوں
کا متضاد کیسے ہو سکتا ہے
ڈولکون نے یہ افواہیں میں پھیلائیں کہ حماس نے خواتین، مردوں اور
بچوں سمیت عام شہریوں پر جان بوجھ کر اور وحشیانہ حملے کیے اور تمام
مظالم اور تشدد کا شکار ہونے والوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن
جب اسرائیل فلسطینی بچوں پر غیر انسانی حملے کرتا ہے تو ڈولکون کی مذمت
کہاں ہے؟ کیا فلسطینی اسرائیلی مظالم کا شکار نہیں ہیں؟ عالمی اویغور
کانگریس کے رہنما کی حیثیت سے ڈولکون اپنے فلسطینی مسلمان ہم وطنوں کے
دکھوں کی قدر بھی نہیں کر سکتے۔ لوگ کیوں یہ مانتے ہیں کہ وہ ایغور
مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے جیسا کہ وہ دعویٰ کرتا ہے؟اگر وہ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ نہیں تو پوری
دنیا کے مسلمانوں کو ڈولکون کیا جتنے بھی اسرائیل کے حواری بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔فلسطین سے مسلمانوں کا رشتہ کیا ہے یہ سب مسلمان جانتے ہیں اس کی کتنی اہمیت ہے

سرزمین بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ نہایت گہرا اور ایمان افروز تاریخ کے ساتھ وابستہ ہے۔فلسطین کی مقدس سرزمین اہل ِ ایمان کے لئے شروع سے عقیدتوں اور محبتوں کی مرکز رہی ہے ،ہر دور میں مسلمانوں نے اسے اپنی جان سے زیادہ اہمیت دی اور اس کے تحفظ کے لئے اپنی زندگیوں کو نچھاورکیاکیوں کہ یہیں پر مسلمانوں کا قبلہ ٔ اول ’’مسجد اقصیٰ ‘‘ واقع ہے ،جس کی طرف رخ کرکے تقریبا سولہ ،سترہ مہینہ نبی کریم ﷺ نے نماز اداکی ۔سب مسلمانوں کو فلسطین کے اس مقدس زمین کے لِے یکجا ہو جانا چاہیے دعا ہے خدا فلسطین کے مظلوم معصوم انسانوں کو اسرائیل کے مظالم سے بچائے اور جلد امن قائم ہو امین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button