6 نومبر یوم شہدائے جموں کشمیر

Spread the love

از قلم
نورین خان
جب بھی نومبر کا مہینہ آتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ میٹھی اور کچھ تلخ یادیں ضرور لاتا ہے ان میں ایک 6 نومبر 1947 ء کشمیر یوں کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب ڈوگرہ فوج اور ہندو بلوائیوں نے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے جموں کے مسلمانوں کو ایک سازش کے تحت قتل کیا،
۔نومبر 1947 کے وحشیانہ قتل عام کی یاد میں ہی کشمیر کے مسلمان ہر سال 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں مناتے چلے آرہے ہیں اور جموں کے شہدا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔
5 نومبر کواعلان کیا گیا کہ پاکستان جانے کے لیے مسلمان پولیس لائنز میں اکٹھے ہوجائیں، اگلے دن خواتین اور بچوں سمیت مسلمانوں کو ٹرکوں میں بھر کر پاکستان کے لیے روانہ کیا گیا تاہم منزل پر پہنچے سے قبل ہی بھارتی اور ڈوگرہ فوج اور ہندو بلوائیوں نے ان کو قتل کردیا۔ڈوگرہ راج نے نومبر 1947 کے ابتدائی ہفتے میں 4 لاکھ سے زائد مظلوم کشمیریوں کو شہید کیا۔
یہ مذموم عزائم ہری سنگھ کے تھے ۔اس واقعہ میں ایک بڑی تعداد جو دو سے چار لاکھ کے قریب ہے مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا اور 5 لاکھ کے قریب مسلمان جموں سے ہجرت پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ جموں کے قتل عام کی اصل تعداد ابھی تک نامعلوم ہے کیونکہ سرکاری ریکارڈ نے مسلمانوں کے قتل عام کی تفصیلات کو دبانے کی پوری کوشش کی ہے۔ مگر یہ تعداد لاکھوں میں تھی جبکہ اس واقعہ کے نتیجے میں جموں میں مسلمان اقلیت میں آ گئے جو واقعہ سے پہلے کل آبادی کا 61فیصد تھے لیکن بدقسمتی سے کشمیری مسلمانوں کا قتل عام بند نہیں ہوا اور اب وادی کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی مودی کی سازش جاری ہے۔ گویا ہری سنگھ سے مودی تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ آج دنیا بھر میں کشمیری ہر سال کی طرح 6 نومبر یوم شہدائے جموں منا رہے ہیں تاکہ ان لوگوں کو یاد کیا جاسکے جنہیں 1947 میں ڈوگرہ افواج نے بے دردی سے قتل کیا تھا۔ نوجوان نسل کو بتایا جائے کہ ہری سنگھ کے سری نگر سے آنے کے بعد مہاراجہ اور ان کی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا تھاجموں شہر میں مسلمان اس وقت مسلم کانفرنس کے زیر اثر تھے جو اس وقت کشمیری مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت تھی۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ نے جموں میں فرقہ پرست آر ایس ایس کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلراج مدھوک، کیدار ناتھ ساہنی، وجے ملہوترا اور مدن لال کھرانہ جیسے آر ایس ایس کے اہم رہنما 1940 کی دہائی کے دوران آر ایس ایس کے انچارج کی حیثیت سے جموں میں تعینات رہے۔ گورنر چیت رام چوپڑا اور ڈی آئی جی پولیس بخشی ادھے چند نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا پھر انتظامیہ نے بھی اس قتل عام میں حصہ لیا۔ منظم مسلح ہندو جتھے بھمبھر تک پہنچ گئے گئے تھے مگر سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی کشمیریوں کے مصائب ختم نہیں ہوئے ہیں کشمیری اب ڈوگرہ راج میں نہیں رہ رہے لیکن بھارتی غیر قانونی قبضے کے باعث ان کے حالات بدسے بدتر ہو چکے ہیں۔ اس وقت بھارت کشمیر میں تقریباً 10لاکھ فوجی تعینات کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے زیادہ فوجی علاقہ ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث رہا ہے۔
ان مظلوم شہدائے وطن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے آج د نیا بھر میں مقیم کشمیری یوم شہداء جموں کے طور پر منا تے ہیں۔ تقسیم برصغیر کے دوران مسلم اکثریتی علاقے جموں کی عوام کو آزادی کی حمایت کی پاداش میں ڈوگرہ مہاراجہ کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا اس کے باوجود بھی کشمیری اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے تو نومبر 1947 کے آغاز میں آزاد خطے بھیجے جانے کا جھانسے دے لاکھوں نہتے مرد، خواتین اور بچوں کو شہید کر دیا۔ مہاراجہ جموں و کشمیر اور ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنک کی مشترکہ منصوبہ بندی سے نہ صرف سامبا کے جنگلات کشمیریوں کی مقتل گاہ بنے بلکہ جموں کی مسلم اکثریت بھی اقلیت میں بدل گئی۔
کشمیر کے مسلمان ہر سال 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں مناتے چلے آرہے ہیں اور جموں کے شہدا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button