آج کے افسانچے

از قلم نورین خان

Spread the love

 

شرم کے مارے

رشیدہ بیگم کہاں ہو؟
جی سرتاج کیا بات ہے۔ٹی وی تو لگا دو آج پاکستانی ڈرامہ دیکھتے ہیں۔تمھیں تو یاد ہوگا بیگم کہ 70 اور 80 دہائی کے ڈرامے جب لگتے تھے تو سڑکیں ویران ہو جاتی تھی اور ہم ٹھیک آٹھ بجے ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے تھے۔یاد ہے بیگم ایک دن جب ہم شمع ڈرامہ دیکھ رہے تھے تو تمھاری ہانڈی جل گئی تھی۔۔۔۔
رشیدہ بیگم کا قہقہہ ہاہاہاہا۔۔۔۔جی جی بالکل۔۔
سلمی بیٹی ٹی وی تو لگاو۔
ٹی وی پر غیر آخلاقی سین چل رہا تھا ڈرامے میں۔۔۔
اور ماں باپ دونوں کا سر بیٹی کے سامنے جھک گیا شرم کے مارے۔

 

عزت

اماں میرے دوست کے والد کا انتقال ہو گیا کل۔ابھی میں دوست کے پاس سے آرہا ہوں،اجے نے اپنے والد کی چتا کو آگ لگا دی میں دور سے دیکھ رہا تھا۔جب میں نے مہیش کاکا سے پوچھا تو کہا یہ دیوان جی کا انتم سنسکار ہو رہا ہے۔اماں کیا جب میں مر جاؤنگا تو آپ مجھے بھی جلائیگی؟
خدا نا کرے بیٹا یہ کیا اول فول بک رہے ہو۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم سب الحمدللہ مسلمان ہیں ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔جب مسلمانوں میں کوئی فوت ہوتا ہے تو اسکو عزت و احترام سے دفناتے ہیں اور پھر اسکا معاملہ اللہ پاک کے سپرد ہو جاتا ہے۔
اماں اسلام واقعی عزت کا اور پردے کا دین ہے۔
اللہ پاک ہم مسلمانوں کو معاف کر دے گا یہ کہہ کر اسلم ماں کے گلے لگ گیا۔

 

غیرت
اماں اماں، کہاں ہے آپ؟
کیا ہوا فراز،سیلم،اختر خیر تو ہے؟ دیکھو اماں تم یہ لوگوں کے گھروں میں کام مت کرو ہماری بیویاں ہمیں روز طعنے دیتی ہے،کہ کام والی ماں کے بچے،یہ روز روز کی ذلت ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ماں تھک ہار کے سامنے والے تخت پوش پر بیٹھی اور بولی میرے بچوں اب تم برسر روزگار ہو بیوی بچوں والے ہو۔تم لوگوں کو مجھ غریب بیوہ سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟
بات نقصان کی نہیں اماں بات ہماری خودداری اور غیرت کی ہے۔بیٹا انہیں جھاڑو پونچھ اور کاموں کی وجہ سے میں نے تم تینوں کو پالا ہے۔شکر ہے اس کریم رب کا کسی کے آگے سر نہیں جھکایا نا ہاتھ پھیلایا آج تک،مگر آج تم لوگوں کو شرم آرہئ ہے کہ ماں گھروں میں کام کرتی ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے اماں اس وقت تم نے ہمیں پالا تھا مگر اب کیوں؟
اب مجھے اپنی خودداری اور غیرت کو پالنا ہے بچوں۔

پتھر کے آنسو

مبارک ہو خیر دین آج تمھاری بیٹی کی رخصتی ہے۔بہت شکریہ قادر بھائی تشریف رکھئیے، کھانا لگ چکا ہے۔زرینہ کی ماں ۔۔۔۔۔۔
کہاں ہو کوئی کمی تو نہیں اندر؟
نہیں سب ٹھیک ہے۔
رشیدن بہن ذرا دیکھو تو سہی خیرو کی بیٹی کی آج رخصتی ہے اور کیسے ہنس ہنس کے لوگوں کا استقبال کر رہا ہے،توبہ توبہ۔۔۔
ہاں بہن ٹھیک کہتی ہو لگتا ہے بیٹی بوجھ لگتی تھی ، اس لیے تو خوش ہے آج۔۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے بیٹی سے جان چھوٹ گئی اس لئے نا غم نا کوئی پریشانی دیکھ رہی ہے۔۔۔
بڑا ہی پتھر دل نکلا خیرو ۔۔۔۔
رات کو کمرے سے سسکیوں اور آہوں کی آوازیں آرہی تھی۔۔
زرینہ کی ماں نے دیکھا کہ خیر دین تکیے پے سر رکھ کے بلک بلک کر رو رہا ہے بیٹی کی جدائی پے۔

کڑوا پھل

دیکھو قادر بھائی اماں میرے ساتھ رہی گی کیونکہ میں تمھارا بڑا بھائی ہوں۔۔
بلکل نہیں اماں میرے ساتھ رہی گی۔
ماں اپنے جوان اور برسر روزگار بیٹوں نادر اور قادر کو حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔
دیکھو نادر بھائی میرا گزارا نہیں ہوتا کہ میں سب کا بوجھ برداشت کروں بہتر یہی ہے کہ اماں میرے ساتھ رہیں۔
کمرے کے کونے میں پرانی کرسی پر بوڑھا باپ بےبسی سے یہ دیکھ رہا تھا کہ کیسے میرے جوان بیٹے اپنے ماں باپ کا بٹوارہ کر رہے ہیں۔
اور خود سے مخاطب ہو کر کہنے لگا
صبر کا اتنا کڑوا پھل۔۔۔۔

 

کوئی فکر نہیں

رات کے دس بجے پولیس ڈنڈے سے سڑک پر سوئے ہوئے بندے کو جگا کر ۔۔۔۔۔اٹھو اٹھو۔۔۔۔۔یہ کوئی سونے کی جگہ ہے؟ شہر میں پابندی لگ گئی ہے کل وزیراعظم کا جلسہ ہے۔۔۔اٹھو جاو یہاں سے۔ ۔۔۔
یہ کوئی سونے کی جگہ ہے بدبخت۔۔۔
آنکھیں ملتا ہوا جوان کھڑا ہوا اور بولا۔۔۔
سرکار اگر میرا گھر ہوتا تو یہاں سوتا۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button