اور فضالہ کی کایا پلٹ گئی

از قلم: نورین خان

Spread the love

فضالہ بن عمیر بن ملوح لیثی اللہ کے رسول ﷺ کے شدید دشمنوں میں سے ایک تھا۔

جب آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں مقیم تھے تو فضالہ نے بظاہر اسلام قبول کر لیا،مگر یہ شخص دل میں اللہ کے رسول ﷺ کے لئےشدید بغض اور عناد رکھتا تھا۔

اس نے پروگرام بنایا کہ اسے جب بھی موقع ملاء اللہ کے رسول ﷺ کوقتل کر دے گا۔نعوذبااللہ۔

مگر رسول ﷺ کے قتل کا منصوبہ کوئی معمولی کام نہ تھا ۔

فضالہ کو خوب معلوم تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر ہے اگر (وہ خدانخواستہ ) اپنے اس
نا پاک منصوبے میں کامیاب ہو جا تا ہے تو بھی اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔

اسے فورا ہی گرفتار کرکے قتل کر دیا جاۓ گا۔

مگر حسد اور عنادایسی بری لعنتیں ہیں کہ جو انسان کو دیوانہ بنادیتی ہیں ، اس کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہیں اور وہ عاقبت نااندیش ہوکر غلط کام کر بیٹھتا ہے ۔

فضالہ نے سوچا کہ اگر اس کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے بعد اسے قتل بھی کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں مگر اس منصوبے پرعمل ضرور ہونا چاہیے۔

اس نے غور وفکر شروع کیا کہ وہ کس وقت اللہ کے رسول ﷺ پر حملہ آور ہوسکتا ہے؟

شیطانی فکر نے اس کے ذہن میں ڈالا کہ جب اللہ کے رسول ﷺ طواف کر رہے ہوں تو یہ اس کام کے لیے بہترین موقع ہوسکتا ہے۔

آپ ﷺ بالکل اکیلے ہوں گے، اردگرداگر کچھ لوگ ہوئے بھی تو وہ زیادہ نہیں ہوں گے۔

اس نے تلوار کو اپنے کپڑوں میں چھپایا اور اس وقت کا انتظار کر نے لگا جب اللہ کے رسول ﷺ طواف کر ر ہے ہوں ۔۔

ایک دن فضالہ کو موقع میسر آ گیا ، اس نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ﷺ طواف کر رہے ہیں۔

اس نے بھی طواف کرنا شروع کر دیا۔

وہ موقع کی تلاش میں تھا کہ کب آپ ﷺ پر حملہ کرے ۔

طواف کے دوران وہ آپ ﷺ کے قریب ہوتا ہے۔

ادھر اللہ رب العزت کا فیصلہ ہے کہ اپنے حبیب کو لوگوں سے بچاتا ہے۔

اللہ تعالی نے فوری طور پر بذریعہ وحی اپنے رسول ﷺ کو فضالہ کے ناپاک ارادے کی خبر دے دی ۔

آپ چاہتے تو اسے فورا گرفتار کروادیے ۔

آلہ قتل تو اس کے کپڑوں میں چھپا ہوا تھا۔

مگر یہاں رحمت ہی رحمت ہے، اپنی امت کے ساتھ خیر، بھلائی اس وقت کا انتظار اور معافی ہے ۔

فضالہ قریب سے گذر رہا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کرنے لگا جب اسے مخاطب کیا اور فرمایا:
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا
وافضالة) ’’ارے کیا تم فضالہ ہو؟‘‘
کہنے لگا اللہ کے رسول ، ہاں! میں فضالہ ہوں ۔
آپ نے صرف اتنا فرمایا:
(ما ذا كنت تحدث به نفسك؟)
”تم اپنے دل میں کیا بات سوچ رہے تھے؟ فضالہ کہنے لگا کچھ نہیں، میں تو اللہ تعالی کا ذکر کر رہا تھا ۔۔
اللہ کے رسول ﷺ فضالہ کی بات سن کر ہنس پڑتے ہیں ۔ فرمایا: (استغفر الله).
فضالہ اللہ سے استغفار کرو ۔ اور ساتھ ہی اپنا دست مبارک اس کے سینے پر رکھ دیا۔ فضالہ کا دل پر سکون اور سازشی خیالات سے پاک ہو گیا۔
اللہ اکبر! اس سے بڑا خوش قسمت کون ہوسکتا ہے جس کے سینے پر اللہ کے رسول سی اپنادست شفقت رکھ دیں؟ فضالہ کی کایا پلٹ گئی ۔ آپ ﷺ کے قتل کے منصوبے بنانے والا اپنے دل میں بغض وعنا د رکھنے والافضالہ کہتا ہے: ادھر آپ ﷺ نے اپنا دست شفقت میرے سینے پر رکھا ، ادھر میرے دل کی کیفیت یکسر بدل گئی ۔آیئے اس کے الفاظ پڑھتے ہیں :
اللہ کی قسم ! آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میرے سینے سے اٹھایا ہی تھا کہ اللہ تعالی کی ساری مخلوق میں میرے لیے آپ ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی اور نا رہا۔
فضالہ حرم پاک سے اپنے اہل وعیال کی طرف واپس جارہا ہے ۔ راستے میں اس کی پرانی محبوبہ کھڑی تھی ۔ اس نے روک لیا۔ کہنے لگی: آ ؤ چند لمحے میرے پاس گزارو۔
مگراب یہ وہ فضالہ نہیں رہا ، اس کا تزکیہ نفس ہو چکا ہے، دل کی کیفیت بدل چکی ہے۔ اس نے کچھ
اشعار پڑھے جن کا مفہوم یوں ہے:
میری محبوبہ نے کہا: آؤ باتیں کریں ۔ میں نے کہا نہیں، اللہ تعالی اور اسلام مجھے ایسے کاموں سے منع کرتے ہیں ۔ اگر تو محمد ﷺ اور آپ کی جماعت کو فتح مکہ مکرمہ کے موقع پر دیکھ لیتی جب بت ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے تو دیکھ لیتی کہ اللہ تعالی کا دین بالکل واضح ہو گیا ہے اور شرک کے چہرے پر تاریکی چھا گئی۔
قارئین کرام ! اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے قتل کا منصوبہ بنانے والے کو معاف کر کے اسے جہنم جانے
سے بچالیا۔ کیا دنیا میں ایسا مہر بان شفیق اور اعلی اخلاق والا کوئی اور بھی ہے؟
(0) السيرة النبوية لابن هشام: 60/4، والاستيعاب: 347/4،، مـخـتـصـر سيرة الرسول لمحمد بن عبدالوهاب
ص:443، والاكتفاء:230/2 .
میرے خیال میں نہیں ہمارے شفیق پیارے مہربان جانم رسول اللہ ﷺ کیطرح کوئی نہیں کائنات میں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button