بے بس حکومت 

 حبیب الرحیم ایڈوکیٹ

Spread the love
 نتخابات سے قبل جو ماحول بنایا گیا تھا اس سے لگتا تھا کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوگی لیکن حیران کن طور پر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے تمام رکاوٹیں عبور کر لیں اور 145 کے ایوان میں سب سے زیادہ تعداد 80  ان کےرہی جس میں خواتین کی 26 اور غیر مسلموں کی 4 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔اور اب خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ تاہم انتخابات کا نتیجہ حیران کن رہا، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 92 نشستوں پر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں،  جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور پی پی پی بلوچستان میں بھی حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ الیکشن کے دن ملک  بھر میں انٹرنیٹ سروس بند ہونے کے باوجود یہ دیکھا گیا کہ جیتنے والے زیادہ تر امیدواروں کے نتائج اگلی صبح تبدیل کر دیے گئے۔ کئی حلقوں میں بے ضابطگیاں بھی دیکھی گئیں۔ ان حالات کی روشنی میں اس کو کوئی بھی صاف و شفاف الیکشن نہیں کہہ سکتا۔ مرکز میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اتحاد کے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مخلوط حکومت ہمیشہ پاکستان کی  تاریخ میں کمزور ترین حکومت رہی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی جماعت کو تنہا حکومت بنانے کا مینڈیٹ نہیں دیا گیا۔ جس کی وجہ سے مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں اکثر اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آزادانہ فیصلے نہیں کرتیں۔ کوئی بھی پارٹی اپنی خواہش کے مطابق مثبت فیصلہ لے بھی تو ہزار بار سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کہیں اتحادی دوست ناراض تو نہیں ہو جاتے اور حکومت بنانے میں کہی روکاوٹیںں پیدا نہ کرے۔ مرکز میں ایک کمزور حکومت ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت اس وجہ سے عدم اعتماد کا شکار ہوگئی۔ موجودہ انتخابات میں ابتدائی غیر سرکاری نتائج بتا رہے تھے کہ اس بار پاکستان تحریک انصاف مرکز میں تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی۔ لیکن بدقسمتی سے، اگلی صبح نتائج الٹ گئے، جس سے ایک بار پھر مخلوط حکومت کی راہ ہموار ہوئی۔ نتائج میں غیر متوقع تبدیلی کو بین الاقوامی برادری نے دیکھا اور یورپی یونین اور برطانیہ سمیت امریکی کانگریس کے نمائندوں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح جب بین الاقوامی میڈیا کو بھی رسائی  نہ ملنے تو میڈیا نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ دوسری جانب مذکورہ انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں سڑکوں پر ہیں جو کہ انتخابات کی منصفانہ اور شفاف نوعیت پر ایک واضح سوالیہ نشان ہے۔ اس صورت میں مرکز میں جو حکومت بنے گی کیا اسے عالمی برادری قبول کرے گی؟ اور کیا اس حکومت کو بین الاقوامی فورمز پر کسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ اگر بین الاقوامی دنیا اس ملک میں نئی حکومت کو ایک جائز حکومت نہیں مانتی تو  عالمی دنیا کے ساتھ معاہدوں اور مختلف فورمز پر اپنے لیے اواز اٹھانی میں بڑی مشکل پیش آئے گی۔ جس کا مستقبل قریب میں ملک کے معاشی استحکام پر کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین نے حالیہ پریس کانفرنسوں میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ہم اپوزیشن میں رہیں گے اور اہم عہدے لیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ملک ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر ایسی حکومت بن گئی تو ان کے پاس اپنی قسمت بدل نے کی خاطر ٹھوکریں کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اس کے باوجود کوئی سننے والا نہیں ہوگا۔ بین الاقوامی معاہدوں کے لیے عوامی حمایت کے ساتھ ایک قانونی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دھاندلی زدہ اور بامقصد حکومت کسی ایک گروہ کے مفاد میں  تو ہو سکتی ہے لیکن یہ کبھی بھی ملک کے بہترین مفاد میں نہیں ہو سکتی۔ ان واقعات اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بار جو بھی مخلوط حکومت بنے گی وہ بے بس نظر آنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکے گی۔ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں وہ حکومت ہو سکتی ہے جو عوام نے منتخب کی ہو اور اسے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہو۔ اس لیے اس بار جو بھی حکومت بنے اس سے کسی خیر کی امید رکھنا بدترین حماقت ہوگی۔
کالم :حبیب الر حیم ایڈوکیٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button