
خدیجہ مستور کا لکھا ہوا آنگن ایک دلکش ناول ہے جو روایتی جنوبی ایشیائی گھرانوں کی خواتین کی زندگیوں کی گہرائیوں پر سے پردہ اٹھاتا ہے۔ آزادی سے پہلے کے ہندوستان کے پس منظر میں، "آنگن” (صحن) کی دیواروں کے اندر رہنے والی عام گھریلو خواتین کو درپیش پیچیدگیوں اور جدوجہد کا احاطہ کیا گیا ہے۔اور اگر سچ کہا جائے تو خدیجہ مستور کی شہرت کا باعث یہی ناول آنگن بنا۔یہ ناول اس زمانے میں بہت مقبول ہوا اور ہاتھوں ہاتھ بکا۔خدیجہ مستور کے ناول آنگن پر ہم ٹی وی نے ڈرامہ بھی بنایا ہے۔یہ ناول ایک عام مشرقی معاشرے کے اندر آرزو، خواہش اور طاقت کے موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے۔یہ ناول برصغیر کے تقسیم کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔اپنے باریک بین کرداروں کے ذریعے، خدیجہ مستور مختلف نسلوں کی خواتین کے مختلف تجربات کی تصویر کشی کرتی ہے، ہر ایک اپنے اپنے خوابوں اور خواہشات کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، اکثر سماجی توقعات سے متصادم بھی ہوتی ہے۔اس ناول میں بتایا گیا ہے کہ گھر کی عورتیں گھریلو سیاست میں،اور گھر کے مرد ملکی برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں،مثال کے طور پر اس ناول میں چھمی کا کردار ایک ایسی لڑکی کا ہے جو بغیر ماں باپ کے زندگی گزار رہی ہوتی ہے اور رشتہ داروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔اسی وجہ سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتی اور جوان ہو جاتی ہے،اگرچہ باپ اسکو تھوڑا بہت خرچہ بھیجتا یے مگر چھمی اس پر خوش نہیں ہوتی۔اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتی بالآخر اسکا رویہ درشت اور سخت ہوتا ہے اپنے چچا سے ہمیشہ لڑتی ہے کیونکہ چچا کانگریس کا رکن ہوتا ہے اور چھمی مسلم لیگ کے حق میں نعرے لگاتی ہے۔چھمی جمیل سے محبت کرتی ہے۔اور جمیل کے لئے اپنا جیب خرچ جو اسکے والد بھیجتے ہیں وہ جمیل پر خرچ کرتی ہے تاکہ وہ بی۔اے پاس کر لیں اور خود پرانے کپڑے پہنتی ہے۔لیکن جب جمیل چھمی کے ساتھ وقت گزار لیتا ہے اور اسکو ٹھکراتا ہے۔کیونکہ جمیل عالیہ کے عشق پے پڑ جاتا ہے۔تو چھمی بہت دکھی ہوتی ہے اور عالیہ سے حسد کرنے لگتی ہے۔چھمی جمیل کو جلانے کے لئے منظور سے محبت کرنے لگتی ہے۔اور اسی دوران منظور کی فوج میں نوکری بھی لگ جاتی ہے۔اور اسی طرح دوردراز گاوں میں چھمی کی شادی ہو جاتی ہے۔بیٹی پیدا ہونے کے بعد بھی چھمی خوش نہیں رہتی سسرال میں کیونکہ اس وقت تقسیم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔چھمی کا سسرال پاکستان ہجرت کرنا چاہتا ہے مگر چھمی پاکستان نہیں جانا چاہتی اور اپنی ساس کو خوب پیٹتی ہے اس بات پر چھمی کو طلاق ہو جاتی ہے۔جہاں چھمی اپنے بڑے چچا کے گھر واپس آ جاتی ہے اور ناول کے آخر میں چھمی کی شادی جمیل سے ہو جاتی ہے۔ناول کا مرکزی کردار، عالیہ، ایک مضبوط خواہش مند اور خود مختار عورت ہے جو روایتی صنفی کرداروں سے بالاتر محبت،زندگی اور تعلیم کی خواہش رکھتی ہے۔اس کی قوت ارادی اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب وہ معاشرتی اصولوں کو چیلنج کرتی ہے، اور اس کی اور اپنے خاندان کی دیگر خواتین سے وابستہ توقعات پر سوال اٹھاتی ہے۔عالیہ خاندان کی کسمپرسی پر اداس رہتی ہے۔اور اپنی تعلیم پر توجہ دیتی ہے۔وہ اپنے باپ اور چچا سے والہانہ محبت کرتی ہے۔اور اپنے ماموں کے دوہرے رویے سے نالاں رہتی ہے۔
عالیہ اس ناول کی ہیروئین ہے اور مظہر میاں کی چھوٹی بیٹی ہے۔عالیہ سے بڑی تہمینہ ہوتی ہے۔تہمینہ اور کسم دیدی کی خودکشی کی وجہ سے عالیہ کو مردوں سے نفرت ہو جاتی ہے اور مردوں پر سے اسکا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔
خدیجہ مستور کی واضح وضاحتیں قاری کو تقسیم ہند سے پہلے کی واقعات کیطرف لے جاتی ہیں، جو اس وقت کے سماجی اور سیاسی ماحول کی ایک واضح تصویر پیش کرتی ہیں۔مصنف معاشرے کے اندر بدلتی ہوئی صورتحال پر بصیرت افروز تبصرہ پیش کرتا ہے، خواتین کے ابھرتے ہوئے کردار اور ان کی زندگیوں پر سیاسی بدامنی کے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔
آنگن کے سب سے زیادہ مجبور پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں خواتین کے رشتوں کی تلاش اور گھر کے صحن کی حدود میں ان کی ہمدردی ہے۔
اس زمانے میں جب تقسیم کے حالات تھے تو عالیہ کے والد قید ہو جاتے ہیں۔عالیہ اپنے ماں کے ہمراہ اپنے بڑے چچا کے گھر آجاتی ہے۔جہاں پر اسکو اپنے بڑے چچا کی ذاتی لائبریری کی چابیاں بھی مل جاتی ہے۔یہاں پر جمیل عالیہ سے محبت کرنے لگتا ہے اور عالیہ کے آگے پیچھے گھومتا ہے، اسی وجہ سے چھمی عالیہ سے ناراض رہنی لگتی ہے۔خدیجہ مستور بڑی مہارت سے آپس میں کزنز بہنوں کی پیچیدگیوں کی عکاسی کرتی ہے، محبت، حسد اور قربانی کو اجاگر کرتی ہے جو خون اور روایت سے جڑی خواتین کے درمیان موجود ہے۔مثال کے طور پر چھمی جو جمیل سے محبت کرتی ہے اور دوسری طرف جمیل عالیہ کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔تو یہاں چھمی عالیہ سے حسد کرنے لگتی ہے اور واضح الفاظ میں وہ عالیہ کو اپنی اور جمیل کی محبت کا بتا دیتی ہے۔چھمی عالیہ سے بات چیت کم کر دیتی ہے اور خود کو حالات کے حوالے کر دیتی ہے۔
آنگن میں نثر شاعرانہ بھی ہے اور گیت بھی ہے،کئی جگہ گانوں کی بول لکھے گئے ہیں، جو کرداروں کے جذبات اور اس وقت کے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہے۔خدیجہ مستور کی کہانی بیان کرنے کی صلاحیتیں قابل ستائش ہیں، جو قارئین کو کرداروں اور ان کی جدوجہد سے گہرا تعلق قائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔اور انسان ان کرداروں میں کھو سا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ بھی خود اس ناول کا ایک کردار پے اور یہ سب اسکے آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے یہی اس ناول کی بہترین بات ہے۔جمیل کو ٹھکرانے کے بعد عالیہ تعلیم کیطرف توجہ دیتی ہے،اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کیطرف ہجرت کرتی ہے۔جہاں وہ ایک کامیاب اور خودمختار عورت بن جاتی ہے۔مگر پاکستان میں بھی عالیہ اکیلی ہوتی ہے اور اسکی دوستی ایک ڈاکٹر سے ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر عالیہ کو شادی کی پیشکش کرتا ہے مگر عالیہ انکار کر دیتی ہے کہ یہ ڈاکٹر لٹے پٹے،بےوطن لوگوں سے فیس لیتا ہے اور لوٹ رہا ہے۔مجھے ایسا ساتھی نہیں چاہئے۔
مجموعی طور پر، آنگن ایک طاقتور اور فکر انگیز ناول ہے جو معاشرتی اصولوں کو چیلنج کرتا ہے اور ایک پرانے دور میں خواتین کی زندگیوں کے بارے میں بصیرت فراہم کرتا ہے۔اپنی زبردست داستان کے ذریعے، خدیجہ مستور شناخت، لچک، اور شخصی آزادی کے حصول کی ایک پُرجوش تحقیق پیش کرتی ہے۔
جیسے جیسے کہانی سامنے آتی ہے، آنگن کئی پیچیدگیوں اور خواتین کی زندگیوں پر ان کے اثرات کے بارے میں گہرائی میں اترتی ہے۔خدیجہ مستور سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان ایک واضح تضاد پیش کرتی ہے، جو ان کے گھروں کی حدود میں خواتین کے جبر کی واضح حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے۔خواتین کو زیادہ تعلیم حاصل کرنی چائیے۔تاکہ تاوقت ضرورت وہ اپنے گھر والوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔اور یوں انتظار کرتے کرتے سسک سسک کر زندگی نا گذاریں۔
قسمت کچھ یوں موڑ لیتی ہے کہ اچانک صفدر اسکی زندگی میں پھر سے لوٹ آتا ہے۔جی ہاں صفدر جس سے عالیہ کی بڑی بہن تہمینہ محبت کرتی تھی،اور بعد میں خودکشی کر لیتی ہے۔عالیہ صفدر کے دل میں اپنی بہن کے لئے محبت دیکھ کر پگھل جاتی ہے اور اپنی ماں سے کہتی ہے کہ اماں میں صفدر سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔جس پر عالیہ کی ماں انکار کرتی ہے تو صفدر اسے کہتا ہے کہ میں ایک کامیاب مرد بننے والا ہوں اب مجھے لائسنس بھی کاروبار کا مل جائے گا۔اب میں وہ پرانا اور دل شکستہ صفدر نہیں ہوں۔جب عالیہ یہ سنتی ہے تو کمرے میں چلی جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میں صفدر سے بھی شادی نہیں کرونگی۔کیونکہ میں تہمینہ آپا کی تلخ یادوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔عالیہ کمرے میں لیٹ جاتی ہے تو اسکے آنکھوں کے سامنے چھمی آ جاتی ہے جو اسے کہتی ہے کہ بجیا تم ہار گئی اور میں جیت گئی۔کیونکہ مجھے میری محبت جمیل کی صورت میں مل گئی ہے۔
عالیہ کے ذریعے، خدیجہ مستور ایک ایسی عورت کو ظاہر کرتی ہے جو سماجی توقعات کے مطابق اور مجبور ہونے سے انکار کرتی ہے۔کیونکہ عالیہ اپنے بہن تہمینہ سے اچھا خاصا سبق سکھتی ہے۔کہ خاموش رہ کے ملک آزاد نہیں کرائے جاتے بلکہ آزادی کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔آواز اٹھائی جاتی ہے۔جدوجہد کرنا پڑتا ہے۔اور اپنے بنیادی حقوق کے لئے آواز اٹھانی چائیے۔
اس ناول میں تہمینہ عالیہ کےبڑی بہن کا کردار ادا کرتی ہے۔جو ایک سیدھی سادھی لڑکی ہے اور اپنے کزن صفدر سے محبت کرتی ہے۔مگر صفدر حالات کا مارا ہوا ہوتا ہے اور کوئی اسکی عزت نہیں کرتا۔تہمینہ کی ماں صفدر سے بہت نفرت کرتی ہے اور صفدر ہمیشہ کے لئے گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے،اور تہمینہ اسے روکتی بھی نہیں۔تہمینہ اپنے ماں کو بتاتی بھی نہیں کہ اسے صفدر سے محبت ہے اس قدر دبی رہتی ہے۔تہمینہ کا رشتہ جمیل کیساتھ ہو جاتا ہے۔عین شادی کے دن جب تہمینہ کو صفدر کا خط ملتا ہے تو زیادہ جذباتی ہو جاتی ہے،چونکہ اسکی سہیلی کسم دیدی نے بھی خودکشی کی تھی تو اسکی دوستی کا اثر بھی تھا،اور اسی چکر کے دوران تہمینہ ڈر اور چھپ رہنے کی وجہ سے زہر کھا کر خودکشی کر لیتی ہے۔
یہ ناول مرد اور عورت کے کرداروں کے درمیان تعلقات کے پیچیدہ جال کو بھی اچھی طرح بیان کرتا ہے۔
اس ناول میں گھر کے آدھے مرد کانگریس کے حق میں ہوتے ہیں۔اور آدھے مسلم لیگ کے حق میں ہوتے ہیں۔ناول میں مظہر میاں کا کردار عالیہ اور تہمینہ کے والد کا ہوتا ہے۔جی ہاں مظہر میاں بڑے چچا کے بھائی اور نجمہ پھوپھی کے بھائی ہوتے ہے۔جو کہ انگریزی سرکار کے ملازم ہے مگر انگریزوں سے سخت نفرت کرتے ہیں اور متنفر رہتے ہے۔چنانچہ اسی نفرت کی وجہ سے ایک دن ایک انگریز افسر کا سر پھوڑ دیتے ہیں۔جسکا پاداش میں مظہر میاں کو بارہ سال کی قید ہو جاتی ہے اور بالآخر قید ہی میں فوت ہو جاتے ہیں۔
ناول میں بڑے چچا مظہر میاں کے بھائی اور عالیہ کے بڑے چچا ہوتے ہیں جس کے دو بیٹے ہوتے ہیں۔جمیل اور شکیل اور چچی۔جس نے کانگریس پارٹی کی وجہ سے سب مچھ چھوڑا ہوتا ہے۔بڑے چچا بٹوارے کے خلاف ہوتے ہیں اور ہر وقت اپنے دوستوں کیساتھ ملک کے حالات اور کانگریس کی خدمات پر گفتگو کرتے تھے۔بڑے چچا پکے کانگریسی تھے اور گھر میں واحد مخالفت اسکی چھمی کرتی تھی جو مسلم لیگ کے حق میں نعرے لگاتی تھی۔قیام پاکستان کے بعد بڑے چچا کا شمار کانگریس کے بڑے لیڈروں میں ہوتا تھا۔مگر ایک دن ایک شدت پسند ہندو کانگریس کے جلسے میں بڑے چچا پر حملہ کرکے اسکو شہید کر دیتا ہے۔جس پر نہرو بھی اظہار افسوس کرتا ہے اور خاندان کے لئے پندرہ سو وظیفہ وفاداری کے طور پر دیتے ہیں۔جسکا کو جمیل لینے سے انکار کر دیتا ہے۔
خدیجہ مستور کا تحریری انداز خود شناسی اور باریک بینی ہے،جو قارئین کو کرداروں کے ذہنوں کی گہرائی میں جانے اور ان کی امیدوں، پریشانیوں اور خواہشات کا تجربہ کرنے دیتا ہے۔
بڑی چچی کا کردار جو کہ عالیہ کی چچی اور جمیل اور شکیل کی ماں ہوتی ہے۔بڑی چچی اپنے شوہر کی مدد بھی نہیں کرتی اور نا اسے کانگریس کے جلسے جلوس سے روکتی بھی ہے۔لیکن جب جمیل لاہور میں مسلم لیگ کے جلسے میں شرکت کے لئے جاتا ہے تو بہت فکر مند ہو جاتی ہے۔کیونکہ بڑی چچی جمیل سے بہت امیدیں لگائی ہوتی ہیں۔
اس ناول میں کریمن بوا کا کردار بڑا مزیدار اور دلچسپ ہے کریمن بوا سارا دن پراٹھے اور روٹیاں بناتی رہتی ہیں اور گھر کے کام کاج کرتی ہیں۔کریمن بوا خاندانی ملازمہ ہوتی ہے مگر کے فرد کیطرح ہوتی ہے اور سب سے بہت محبت کرتی ہے۔
گھر کی حالت دیکھ کر سبھی ملازم گھر چھوڑ کے چلے جاتے ہیں،مگر کریمن بوا واحد خادمہ ہوتی ہے جو پورے خاندان کا ساتھ نبھاتی ہے آخر تک اور سب کی خدمت کرتی ہے۔
ناول میں نجمہ پھوپھی کا کرادار دیسی انگریز جیسا ہیں۔ جنھوں نے انگریزی میں ماسٹرز کیا ہوتا ہے خود کو کچھ سمجھتی ہے اور اردو بولنے اور اردو میڈیم پڑھنے والے اسکو جاہل گوار لگنے لگے۔ ہر ایک پر انگریزی الفاظ سے رعب جھاڑنا ان کا مشغلہ تھا۔آخر میں نجمہ پھوپھی ایک بہت پڑھے لکھے آدمی سے شادی کر لیتی ہے اور پھر طلاق بھی لے لیتی ہے کہ وہ آدمی بی۔اے پاس ہوتا ہے اور نجمہ پھوپھی کو دھوکے میں رکھتا ہے۔
عالیہ اپنے بہن تہمینہ سے بہت اثر لیتی ہے اور خود کو حالات کے دھارے پر نہیں چھوڑتی بلکہ آگے تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔اور دوسری طرف عالیہ جمیل کو بھی پسند نہیں کرتی جس سے اسکی بہن تہمینہ کا رشتہ ہوا ہوتا ہے۔جمیل ایک کمزور اور سطحی کردار ہے جو پہلے چھمی سے پیار کرتا ہے اور شادی تہمینہ سے کر رہا ہوتا ہے۔مگر بعد میں عالیہ کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔جمیل کے کردار کو ہم مستقل مزاج کردار نہیں کہہ سکتے۔جمیل جو شکیل کا بڑا بھائی عالیہ کا چچا زاد ہوتا ہے۔جو چھمی کے پیسوں سے بی۔اے پاس کر لیتا ہے اور پھر چھمی کیساتھ محبت کا کھیل رچا کر اسے دھتکار دیتا ہے۔عالیہ سے محبت کرنے لگتا ہے مگر عالیہ سے منہ نہیں لگاتی تو بعد میں فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے۔اور قیام پاکستان کے بعد جب عالیہ پاکستان ہجرت کرتی ہے تو جمیل بہت اداس رہنے لگتا ہے۔کہ عالیہ کوئی رابطہ ہی نہیں رکھتی اور بعد میں چھمی سے شادی کر لیتا ہے۔مجھے جمیل کا کردار پسند نہیں آیا ناول میں۔
ناول میں سب سے مظلوم کردار اسرار میاں کا ہے جو ایک داشتہ کا بیٹا ہوتا ہے اگرچہ خون ایک ہوتا ہے۔اسرار میاں ہر وقت چائے اور کھانا مانگ کر کھاتے ہیں اور ہمیشہ کریمن بوا سے گالیاں سنتے ہیں۔مگر احساس کمتری اور دبائے ہوئے ہوتے ہیں۔گھر کے باقی افراد سوائے کریمن بوا کے اور عالیہ کے والدہ کے اسرار میاں کو اسکے جائز حقوق دلانا چاہتے ہیں۔مگر کریمن بوا ہر وقت اسرار میاں کو اسکی اوقات یاد دلاتی رہتی ہے۔
عالیہ کی ماں ایک ایسا کردار ہے جو ایک طرح سے خود پرست، بےحد اسٹیٹس اسٹیٹس کرنے والی اور صرف اپنی بات کو درست سمجھتی ہے، ناشکری اور جذبات سے عاری کردار ہے جو کسی کی پروا نہیں کرتی۔ جبکہ ماں کی بھابھی گوری انگریز خاتون ہیں جن پر اس غلامی کے دور میں ماں جی کو بڑا ناز ہوتا ہے۔ ہر وقت اپنے مائیکے کی بڑائی کے گیت گاتی رہتی ہیں۔ یہ کردار جذبات سے عاری ماں کا ہے جسے اپنی سگی اولاد تک کے سکون کی پرواہ نہیں ہوتی۔حتی کے اپنے شوہر لی بھی پروا نہیں کرتی اور اس کی اکڑ اس کے اور ساتھ رہنے والوں کے درمیان کسی دیوار کی طرح حائل رہتی ہے اور وہ کسی کے ساتھ جذباتی تعلق قائم نہیں کر سکتی۔صفدر کی ہر وقت بےعزتی کرتی اور بڑا بھلا کہتی تھی۔اس ناول میں صفدر کا کردار بھی بہت اہم ہے،جو کہ سلمی پھوپھی کے بیٹے ہوتے ہیں۔سلمی پھوپھی نے ایک غریب کسان سے شادی کی ہوتی ہے۔اور عالیہ کی دادی اسے گھر سے نکال دیتی ہے مگر جب صفدر لی ولادت ہوتی ہے تو سلمی پھوپھی لی موت ہو جاتی ہے اور یوں صفدر کو مظہر میاں یعنی عالیہ کے والد کے سپرد کیا جاتا ہے۔جہاں عالیہ ماں روز روز صفدر کی بےعزتی کرتی ہے اور اسے نیچ ذات سمجھتی ہے اور صفدر کو گلا سڑا کھانا کھلاتی ہے۔ایک دن بغیر بتائے گھر چھوڑ دیتا ہے اور چلا جاتا ہے
جب مظہر میاں اسکو تعلیم کے لئے روپے بھیجتے ہیں تو صفدر واپس کر دیتا ہے۔آخر میں عالیہ کو شادی کا کہتا ہے مگر انکار ہو جاتا ہے۔
آخر میں، خدیجہ مستور کا آنگن ایک غیر معمولی ناول ہے جو ایک روایتی جنوبی ایشیائی گھرانے میں خواتین کی زندگی کی بھرپور تصویر کشی کرتا ہے۔ یادگار کرداروں، فکر انگیز موضوعات، اور شاندار کہانی سنانے کے ذریعے، مستور صنفی حالات اور سماجی توقعات کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالتی ہے۔مختصر الفاظ میں آنگن ایک سیاسی اور سماجی ناول ہے۔جو آپ سب کو ایک بار ضرور پڑھنا چاہئیے۔