
پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست چترال، دیر اور ریاست سوات بالترتیب خود مختار ریاستیں تھیں جوکہ بالترتیب ضلع لوئر اور اپر چترال، ڈسٹرکٹ دیر لوئر اور ڈسٹرکٹ دیر اپر، ڈسٹرکٹ سوات، شانگلہ اور بونیر پر مشتمل تھیں۔ 1971 کے بعد ان ریاستوں کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا اور خصوصی معاہدے کے رو سے سارے ڈویژن کو ٹیکس فری قرار دیا گیا، صنعت کاری کو یقینی بنایا جائے کا اور اس علاقے کے مکینوں کو سرکاری نوکریوں میں ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کرنے کا اقرار تھا۔ 2018 میں آئین کی 25ویں ترمیم کے ساتھ سابقہ فاٹا اور پاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا جس کے مطابق آرٹیکل 247 میں ترمیم کی گئی۔ جس سے ملاکنڈ ڈویژن کا حصوصی حیثت تبدیل ہوکر دیگر ڈویژن کی طرح ہر قسم کا ٹیکس بھی لاگو ہوا ۔ جس پر مقامی لو گوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے ایا جس پر بعدہ مقامی سیاسی قیادت نے عوامی دباؤ کے باعث حکومت کے ساتھ ایک اور معاہدہ کر لیا تاکہ محض اس معاملے کو رفعہ دفع کیا جا سکے۔ جس سے کچھ وقت کے لیے مذکورہ معمالہ کچھ عرصہ کے لیے رفع دفع بھی ہوا اور سیاسی سکورینگ بھی ہوا۔ اس وجہ سے ٹیکس لاگو کرنے کا مسلہ کچھ وقت کے لیے تو روکوایا گیا ملگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ یہ ایک لو لی پاپ تھا۔ ایک باراگراس مسئلہ کو عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے حل کیا جاتا تواب بار بار اس پر احتجاج اور شٹرڈاون ہرتالوں کی نوبت بھی نہ اتے۔ لیکن بدقسمتی سےمقامی قیادت کے غیر سیاسی اور جمہوری طرز عمل نے کبھی بھی اس مسلہ کو مکمل طور پر مفاد عامہ کی تناظر میں حل کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی ان کے طرف سے کوئی سنجیدہ قدم اٹھا یا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کو ایک بار پھر اسی مسئلے کا سامنا ہے۔ جوکہ ملاکنڈ ڈویژن کے سیاسی قیادت میں سیاسی بصیرت اور مفاد عامہ کے ادراک میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ تمام سیاسی اور جمہوری معاشروں میں ہر شہری کو اپنے فرائض کے جواب میں کچھ بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ شہریوں اور ریاستوں کے درمیان سماجی معاہدے میں ہر شہری کے تمام بنیادی حقوق اور بنیادی ضرورتوں کو نقینی بنانا ہر جمہوری معاشرے کا اولین ذمہ داری ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں بد قسمتی سے ہر شہری کو ان کے بنیادی ضرورت تک رسائی ریاست کی طرف سے اب تک یقینی نہیں بنائی گئی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب اس کی کوئی اثرات نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات سے ہر شہری تا حال محروم ہے مگر نہ تو صوبائی حکومت کی طرف سے اور نہ ہی وفاقی حکومت کی طرف اس میں کوئی سنجید گی ظاہر کی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن حالیہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہوا ہے۔ جب کچھ عرصہ کے لیے امن قایم ہوا تو تباہ کن سیلاب اور زلزلہ کے شدید جھٹکو نے ایک بار پھر ہوٹلوں اور عمارتوں کو زمین بوس کیا جس سے کافی مالی نقصان ہوا۔ مختصراً، مالاکنڈ ڈویژن ملک کا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے جہاں دنیا کے پست ترین معاشروں سے بھی ذیادہ بنیادی ضرورت کا فقدان ہے۔ فاٹا اور پاٹا کے انضمام کے بعد ملاکنڈ ڈویژن سب سے بڑا ڈویژن بن گیا جس سے انتظامی امور کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کے حل میں بھی بہت بڑا رکاوٹ پیدا ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ آبادی اور علاقے کے لحاظ سے سب سے بڑا ڈویژن ہونے کے باوجود بھی ملاکنڈ ڈویژن کے باسی اہنے بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پشاور اور مردان پر انحصار کرتاہے۔۔ تعلیم کا تناسب اب بھی سب سے کم ہے، لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوئی معیاری سکول کالج اور ہسپتال دستیاب نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس فری زون قرار دیا گیا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ کچھ چیزیں ایسے ہے جس پر ملاکنڈ ڈویژن کوٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے لیکن بالواسطہ ٹیکس ملاکنڈ ڈویژن کے رہائشی اول سے مختلف اشیاء پر ادا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ریاستی مشینری کا مکمل طور پرانحصار اپنے شہریوں سے وصول کیے جانے والے ٹیکس پر ہوتاہے، لیکن شہری حکومت کو ادا کیے گئے اپنے ٹیکس کے بدلے میں ہمیشہ کچھ حقوق مانگتے ہیں۔ اور پاکستان میں یہ احساسی محرومی بھی ہے کہ اگر ہم ٹیکس ادا بھی کرے تو کیا حکومت اس کو مفاد عامہ کے استعمال کریگا یا عوامی نوکروں کے شاہ خرچیوں پر صرف ہوگا۔ ریاست کا فرض ہے کہ پہلے اپنے شہروں سے وصول کردہ ٹیکس کے صحیح استعمال کو یقینی بنائے پھر ٹیکس کی ادائیگی میں کوئی شک نہیں رہے گا۔ ملاکنڈ ڈویژن کے مکینوں کی بنیادی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا یقین دہائی کرائی پھر ہر شہری بحثیت ایک ذمہ داری شہری بخوشی ٹیکس اداء کرنے کو تیار رہیگا۔ ٹیکس ضروروصول کرے مگر اس کی صحیح استعمال کو یقینی بنائے اور شہروں کو کم از کم اپنے بنیادی ضروریات مہیا کرے۔