مہنگائی کی ستائی عوام کو حکومت نے عید الاضحی سے قبل ہی 3 روپے 25 پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کر کے عیدی دے دی۔ بجلی کے بڑھتے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، عوام اس قدر پریشان ہے کہ اسے سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ بجلی کا بل ادا کریں یا پھر بچوں کو پالیں۔ حکمران غربت کی بجائے غریبوں کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ حکمران اور اشرافیہ خود تو عیاشی کر رہے ہیں جبکہ عوام ایک پنکھا چلانے کی سکت بھی کھو چکی ہے ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی غریب مزدور طبقے، مڈل کلاس کاروباری اور سرکاری طبقے کے لئے ایک بہت بڑا چلینج بن گئی ہے۔ بجلی کے بلوں نے غریب عوام کو فاقہ کشی پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ٹیکس لگانے والے خود ٹیکس نہیں دیتے، بجلی کی قیمت بڑھانے والوں کو تو بجلی مفت ملتی ہے، بجٹ بنانے والے بھی پہلے اپنے لئے ریلیف ڈھونڈتے ہیں بعد میں غریب عوام کا سوچتے ہیں، ملک پاکستان کا نظام درست کرنے والوں کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ آخر بے بس غریب عوام بیچاری اپنی فریاد کرے بھی تو کس سے کرے، بجلی کے آنے والے بلوں نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ غریب اور مڈل کلاس طبقے کا گھریلو بجٹ انتہائی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ لوگ اپنی بساط سے زیادہ آئے ہوئے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لئے گھر کا قیمتی ساز و سامان تک بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے جب بجلی سستی تھی تو چوری بھی نہیں تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بجلی انتہائی مہنگی کر دی گئی اور اسی تناسب سے بجلی چوری کی شرح بھی بڑھ گئی۔ بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ جنرل سیلز ٹیکس، انكم ٹیكس، فاضل ٹیكس، ٹیلی ویژن فیس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ دیگر ٹیکسز کے نام پر غریب عوام کو ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ بجلی کے بل زیادہ آنے کی ایک بڑی وجہ واپڈا والوں کی طرف سے میٹر ریڈنگ کا جان بوجھ کر لیٹ لیا جانا ہے۔ ہر ماہ چند دن جب میٹر ریڈنگ لیٹ لی جائے گی تو تب تک یونٹ زیادہ چل چکے ہوتے ہیں اس طرح ٹیرف ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ جب ٹیرف ریٹ بڑھ جاتا ہے تو رقم زیادہ بننے پر تمام ٹیکسز کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بجلی بلوں کے بوجھ سے دلبرداشتہ ہو کر لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں، اب تو صورت حال ایسی ہو چکی ہے کہ ہم کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی اور گھر پیر کا ہے بجلی کے چراغوں سے روشن۔ ہمیں اب دوبارہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں جانے کے لیے ان کی پہلی شرائط پر عمل کرنا ضروری ہے۔ بجلی کا بل تو غریب پر آسمانی بجلی بن کر گرتا ہے، انسانیت کے ناطے اپنے اردگرد سفید پوش لوگوں پر نظر رکھیں جو اپنے بجلی کے بل بھی ادا نہیں کر پا رہے یا پھر شرم کے مارے کسی سے بات بھی نہیں کر پا رہے، اگر ہو سکے تو آپ خود یا کچھ لوگ مل کر اپنے دوستوں، رشتہ داروں، ہمسایوں، اپنے ساتھ والے دوکانداروں کا بل ادا کرنے کی کوشش کریں یا ان کو قرض حسنہ دے کر ان کی وقتی پریشانی ختم کرنے کا موجب بنیں۔ اگر ہم کسی کی مدد نہ کر سکے تو شاید کوئی پریشانی کی وجہ سے کوئی غلط قدم بھی اٹھا سکتا ہے، مہنگی بجلی نے نہ صرف ملکی معیشت تباہ کی بلکہ صنعتی پیداوار کی لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی اور مڈل کلاس کی کمر ٹوٹ گئی۔ مہنگی بجلی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) سے ایسے معاہدے کئیے کہ ان کی بجلی نہ بھی لی جائے تو بھی حکومت ان کو سالانہ 2000 ارب روپے سے زیادہ ادا کرنے کی پابند ہے اور وہ بھی ڈالروں میں۔ میرا اپنی پاکستانی قوم سے ایک سوال ہے کہ کیا آپ مزید مہنگی بجلی افورڈ کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو اپنے حق کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ یہ مجرمانہ خاموشی آخر کب تک؟ کاش اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے نام نہاد انسانی ہمدرد اس سلسلہ میں فوری نوٹس لیتے ہوئے آنے والے بجٹ میں عوامی مفاد میں بہتر فیصلہ کریں، بجلی کو مذید مہنگا کرنے کی بجائے سستا کر کے پاکستانی عوام کے دل جیت لیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ملک پاکستان کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔ آمین