
نہ جانے کیسے لوگ اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں ختم کر دیتے ہیں۔ شاید ان کے پاس زندگی گزارنے کی کوئی سٹریٹیجی نہیں ہوتی، اسلئے وہ عصرحاضرکے ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی ان دیکھی، انجان منزل کی تلاش میں انجان راستوں پر چلنے لگتے ہیں یہ سوچ کر کہ شاید آگے کسی منزل کے نشان مل جائیں۔کوئی دوست مل جایئں یا کوئی حسین دوشیزہ سےبات کرنے کا موقع مل جائیں۔
اور اکثر لوگوں کو توناہی منزل کاپتہ ہوتاہیں۔اورنا ہی انکاکوئی مقصد ہوتاہیں۔بس سکرول کرتےجاتےہیں۔
جب انسان کے پاس کوئی منزل نہ ہو،کوئی مقصد نہ ہو تو اسے مرنا آسان لگتا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے جو ایسا کرتے ہیں وہ مایوسی کی دلدل میں دھنس چکے ہوتے ہیں۔
اجکل انزائٹی اور ڈپریشن اس نہج پہ پہنچ چکی ہیں کہ ہر دوسرا بندہ اس کاشکارہیں۔جس کیوجہ سےخودکشی کی tendency بڑھ رہی ہیں۔دراصل اسکی بڑی وجہ Screen Exposure ہیں۔اور اس میں اہم کردار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کاہیں۔جس میں فیسبک،انسٹا،سنیپ چیٹ یوٹیوب اور دیگر شامل ہیں۔
ان پلیٹ فارمز کے تین اہداف ہیں جس کیلئے وہ کام کرتےہیں۔
Advertisement .1
Engagement .2
Growth .3
فیسبک والوں نے ایک Experiment کنڈکٹ کی جس کو
"Massive Scale contigo Experiment”
کانام دیاگیا۔اس کیلئے مختلف انجنیئرز کاسہارالیاگیا۔جن کا کام لوگوں کی سائیکالوجی کوہیک کرناتھا۔
انہوں نے اس Experiment کے baseپر conclude کیاکہ:
"We can affect the Real world Behavior & Emotion without triggering the user’s awareness they are completely clueless”
اس سے اندازہ لگائیں کہ کس طرح انہوں نے ہماری سائیکالوجی کوہیک کیاہیں اور کس طرح ہمیں engaged کررکھاہیں۔سکرول ڈاؤن کرتے بھی نیاکچھ دیکھاتےہیں اور سکرول آپ کرتےبھی۔ اس طرح کرکےہم اپنے آپ کو ذہنی نقصان پہنچاتےہیں جبکہ انکو ٹریلین ڈالرزکامنافع دےدیتےہیں۔
ایک اور سوشل فلیٹ فارم جوکہ ایک
ڈیجٹل بازار حسن ہے۔اسکانام ٹیک ٹاک ہے۔
ٹک ٹاک ایک ایساپلیٹ فارم ہے۔
جس پر جوانیاں سج کربکتی ہیں۔
کھلےعام ڈبل ٹیپ ڈبل ٹیپ کےنعرےلگاکر صنف نازک اور مرد آہن کا مقابلہ ہوتاہیں۔
اور پنشنمنٹ کہ نام پہ پس پردہ کام پیش پردہ کیاجاتاہیں۔
ایک ایسا بازار حسن جس میں دختربازی اور بچہ بازی دونوں کامیلہ گرم رہتاہیں۔
ڈالرز کمانے کی دوڑ میں جوان لڑکے،لڑکیاں،انٹیاں اور بڑےعمر والے اتنےگرےہوئےہیں۔
کہ اپنی عزتوں کا جنازہ ادا کرکے خودہی گورکن بن کے ایک ایسی جگہ دفن کر دیتے ہیں۔
جہاں مٹی کا ڈھیر نہیں بنتا ناقبر کی کوئی نشانی ہوتی ہے۔
بےوقوف جوانیاں اپنی عزت کے دشمن کیوں بنی ہوئی ہیں؟
کچھ تومعیار ہونا چاہیئے۔
کہ کوئی فیملی کیساتھ بیٹھ کر موبائل تو کھول سکیں۔
ہرسمت سے غلظت کی تعفن اٹھ رہاہے۔
سوشل میڈیا ہماری اور آنے والے نسلوں کی زندگیوں پربری طرح اثرانداز ہورہی ہے۔جیسےہم انٹرٹینمنٹ سمجھتے ہیں وہ دراصل ہمیں دیمک کی طرح اخلاقی طورپرچاٹ رہےہیں اور ہمیں خبرتک نہیں۔
اگراپنےاپ اور اپنےذہن کو فریش رکھنے کا خواہاں ہیں۔تو screen Exposure کوکم کرلیں فزیکل ایکٹیویٹیز میں خود کو engage کرلیں۔سوشل گدرنگز کا حصہ بنیں early to bed and early to wake کی عادت اپنائیں۔اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں سےختم ناکریں۔
زندگی سے پیار کریں کیونکہ زندگی دوبارہ نہیں ملتی۔
اٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں
نئےتہذیب کےانڈےہیں سارےگندے