جنت مکانی بیتاب مرحوم نے جوشِ شفقت میں موصوف کو ادبی جرنیل کا خطاب دیا تھا جس کو بعد میں تمام پشتو ادب نے موصوف کی کارگزاری کے بدولت مِن و عن تسلیم بھی کرلیا۔
اگر محض مثال کے طور پر پشتو ادب کو ایک بڑا ،، پلاٹون،، سمجھ لیا جائے تو ِبلاشبہ پورے پشتو ادب میں ایسا کوئی شخص ہاتھ آنا کارِ دشوار ہی ہے جو جرنیل صاحب سے واقف نہ ہو یا جس سے موصوف ناواقف ہو، اتنی واقفیت کے باوجود پشتو ادب کی ایسی غمی اور خوشی ڈھونڈنا بھی تحقیقی ادب ہے جس میں موصوف موجود نہ ہو۔
جس خطے کو پشتو ادب میں انگا، بنگا اور ھندی ادب میں پورب پچھم کہتے ہیں موصوف اس کے کل ادبی حدود اربعہ اور جغرافیے میں جانے مانے ہیں، انگا میں کسی ادیب و شاعر کا فرضِ کفایہ ہو، یا بنگا میں سنتِ سخن دانی کی تقریب ہو، موصوف پورب، پچھم حاضرِ خدمتِ نکتہ داں و نکتہ چیں۔ لیکن موصوف بذات خود ان میں سے نہیں جو بقول مرزا صاحب:
نکتہ چیں ہیں غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے،
موصوف قصہ ئے غمِ دل بھی سنتے ہیں بلکہ بعض اوقات بگڑی بھی بنانے والوں میں سے ہیں کیونکہ دلوں میں بغض رکھنے کے قائل ہی نہیں۔
تعلقات عامہ میں بھاگم دوڑم کی قوت نے ایسا باخبر بھی بنایا ہوا ہے کہ اگر آپ کے موصوف سے تعلقات بہتر ہیں جو عمومی سطح پر بہتر ہی ہوتے ہیں تو اپ کے پاس پشتو ادب سے وابستہ ہر مطلوب شخص کے بارے میں معلومات کی دستیابی کی سہولت بھی میسر ہے اور جیبی یا براہ تار ٹیلی فون نمبروں کی ،ڈائرکٹری، بھی دستیاب ہے، انکے باخبری کے بارے میں ایک پرانی ہندی فلم کا ایک گانا ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے جس کو فلم میں ایک خبری کا کردار نبھانے والا گاتا ہے کہ:
آتے جاتے ہوئے میں سب پہ نظر رکھتا ہوں
نام عبدل ہیں مرا سب کی خبر رکھتا ہوں۔
لکھنے کی اتنی توانیت کہ کسی بھی ادبی محفل خصوصاَ مشاعرے میں پورے تن سے موجود بھی ہوتے ہیں اور کچھ حرکات یا محرکات کے بدولت چھوتائی غیر حاضر بھی لگتے ہیں، مشاعروں میں واہ واہ اور ،،زبردست،، کی اوازوں سے اپنی موجودگی کا احساس بھی دلاتے ہیں اور انکی روداد پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس اسی میں مگن تھے کیونکہ محفل کی تمام تر کاروائی کا خلاصہ قلم بند کیا ہوتا ہے، روداد بہت اچھی لکھتے ہیں اگر کسی جگہ روانی میں کوئی سکتہ محسوس ہو تو اس کو اسی گو مگو والی کیفیت کا نتیجہ جان کر مطلب نکالئیے اور آم کھائیے، بہرحال ان کے رودادیں آنے والوں کی لئے بہترین ادبی تاریخ ہے۔
درد مسیحائی اتنا کہ اپنے لئے کسی سے نہیں مانگتے لیکن دوسروں کے لئے ہر کسی سے مانگتے ہیں اس کی مختصر مثالیں کراچی میں مرحوم ریاض تسنیم کے وفات پر اکیڈمی ادبیات سے ان کے شاعرانہ حقوق مانگنے اور محترم روخان یوسفزئ کے معصوم بچے زریاب کے کینسر جیسے موذی مرض کے دلجوئی کے لئے تمام دوستوں کو متوجہ کرنے جیسے واقعات ہیں۔
شریف اتنے ہی ہیں جو بقول رحمان بابا:
لاس پہ سر پہ سینہ ایخے و ھر چاتہ
ھم دغہ دے شرافت پہ دا دنیا،،
مفہوم یہ ہے کہ ھر کسی کے سامنے سینے اور سر پہ ہاتھ رکھنا، اس دنیا میں یہی تو شرافت ہے، در گزر اتنی کے جن کو آبیاری کا یہ سبق پڑھایا کہ:
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردان ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ چمن
یہ چمن ہیں ہمارا، تمھارا نہیں
اور جن کو سوال کرنا سکھایا وہ بقول غالب سوال کرے کہ:
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائے کیا،
ایسے سوالات کو درگزر کرنے کی جرنیلی مسکراہٹ کا موصوف کے کچھ قریبی جاننے والوں نے مشاہدہ کیا ہوا ہے۔
موصوف یوں تو بھاری بھرکم وجود رکھتے ہیں لیکن محترم گل محمد بیتاب کے سامنے بھاری نہیں لگتے، یہ الگ بات ہے کہ ادب میں کس کس پہ بھاری ہے، قد لمبا ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ فضل حکیم عندلیب کے کاندھے تک پہنچے، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن ہیں جس پر اب عینک کی مستقل حکمرانی ہیں، یہ چشم ما روشن بعض حالتوں میں اور بڑی ہو جاتی ہیں اس حالت کے بارے میں اردوداں تخئیل کے گھوڑے دوڑا سکتے ہیں اور پشتو ادب والے خوشحال بابا کے اس مصرعے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ: پہ چمن کی رنگا رنگ گلونہ ،،وا،، کا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب سے انکی دل کی دنیا نئے سرے سے آباد ہوئی ہے تب سے ان آنکھوں کی بے قرار موجیں بھی پرسکون سی ہو گئیں ہیں۔
آبائی تعلق باجوڑ سے ہے لیکن بچپن سے جوانی تک کی زندگی مردان میں بسر کی جس کی بدولت مردان کی تمام ادبی شخصیات سے ذاتی تعلقات اور دوستیاں تھیں اور ہے جیسے شمس القمر اندیش، پیر گوہر، قمر راہی، ڈاکٹر ھمایون ھما، عبدالروف ذاہد، و عارف، فیض الوھاب فیض، گوہر نوید، ڈاکٹر اسرار اور اسرار طورو، م ـ ر ـ شفق، تاج الدین فطرت و دیگر۔
وصال قریشی صاحب سے کچھ خصوصی مراسم تھے جس کے بارے میں کچھ دوستوں (جن میں خاص طور پر دلباز ثانی قابل ذکر ہے) کے اندیشے تھے کہ انکی خصوصی دوستی کے اصل محرکات شاید یہ ہے کہ وصال قریشی اپنے خصوصی ٹوٹکہ قسم کے ایجادات کے تجربات جن بقید حیات جانداروں پر کرتے رہتے ہیں موصوف ان میں سے ایک ہے، یہ ذکر خالی از علت نہیں کہ بقول مرشد صدیق اکبر رضا وصال قریشی بذاتِ خود مجموعہءِ کمالات ہیں اور حکیم سے زیادہ سائیندان اور کیمیادانی کا گر جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے ٹنگ ٹنگ گوپال قسم کے بہت سارے ایسے نسخے ایجاد کر رکھے ہیں جس کے بدولت پرانے وقتوں کے وہ تمام شوقین حضرات انکے حلقہ بگوش ہیں جن کے بدن کے مختلف حصوں میں مستقل یا منتقل ہونے والوں دردوں کا بسیرا رہتا ہے، البتہ مردان میں اس کیمیادانی کے علاوہ بہت سی ادبی تنظیموں کے آبیاری کا سہرا بھی انہی دونوں حضرات کے سر ہے، موصوف چونکہ ادب ساز اور تنظیم ساز قسم کے شخصیت ہے، اس لئے جب بوجوہ روزگار اسلام اباد میں سکونت اختیار کی تو وہاں بھی ادبی تنظیم سازی سے وابستہ رہے اور 1986 میں م ـ رـ شفق کے ساتھ مل کر ایک ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی جو آج تک قائم ہے، یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ وصال قریشی کے پرخلوص تبرکات اور شفق صاحب کے قریبی ساتھ ہونے کے باوجود بھی موصوف اس بیماری سے دور رہے جس کے بدولت میر صاحب مرحوم ،،اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے تھے،، اور حال ہی میں اپنی ساٹھ سالہ خدمات کے بعد محکمہ ،،واپڈا،، سے باعزت بری ہو گئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جرنیلوں میں کوئی خصوصیات ہو یا نہ ہو، موصوف میں ایک مستعد جرنیل کی تمام خصوصیات بخوبی موجود ہیں جس کی بدولت موصوف یعنی محترم اقبال حسین افکار کی دستکِ جرنیلی کو تمام پشتو ادب نے بہ تقاضائے مصلحت اور مصالحت شرفِ قبولیت بخشی ہیں، جن میں سے چند ہمارے جیسے ادب کے طالبِ علم بھی ہے جو اقبال حسین افکار کو ازراہے محبت بھی ادبی جرنیل مانتے ہیں اور ان کے افکار کے سامنے سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے۔