جاسوسی ناول، ایکسٹو کی شادی

ازقلم: نورین خان

Spread the love

دوسرا حصہ
اچانک، جولیا کو چکر آنے لگتا ہے۔وہ اچانک کھڑی ہو جاتی ہے، ہلتی ہوئی جیسے وہ بیمار محسوس کرنے لگتی ہے۔ وہ مڑتی ہے، اس کا چہرہ ایک دم نیلا پڑ جاتا ہے جب وہ دروازے کی طرف ٹھوکر کھاتی ہے، اس کے منہ پر عمران ہاتھ رکھ دیتا ہے خاموش۔ عمران جلدی سے کھڑا ہو کر اس کی طرف بڑھتا ہے۔
عمران: (جولیا کو تھامتے ہوئے)
ارے، ارے! پرسکون ہو جاؤ، جولیا. یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ذرا سانس لیں۔
جولیا: (گھبراہٹ، آواز متزلزل)
میں نہیں کر سکتی… میں نہیں کر سکتی… یہ… وہ… اس کے ساتھ…
عمران: (آہستگی سے بولتے ہوئے، اسے پرسکون کرنے کی کوشش کرتے ہوئے)
جولیا، میری طرف دیکھو۔ وہ صرف کافی پی رہا ہے، مزید کچھ نہیں۔ اسے خود تک پہنچنے نہ دیں۔یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جولیا ایک گہرا سانس لیتی ہے لیکن پھر بھی کانپ رہی ہے، اس کا ہاتھ اب بھی اس کے منہ پر ہے۔ عمران نرمی سے اسے واپس میز کی طرف لے جاتا ہے۔یہاں آرام سے بیٹھو۔
عمران: (اطمینان سے) بیٹھو۔ ذرا پانی پی لو۔ یہ ٹھیک ہے۔
جب جولیا بیٹھی، بظاہر اپنی سانسوں کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی، عمران تنویر کی طرف دیکھتا ہے، کیونکہ وہ بھی فکر مند لگ رہا ہے۔
تنویر: (خاموشی سے)
وہ واقعی ہل گئی ہے۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ اس طرح سے رد عمل ظاہر کرے گی۔جولیا سر ایکسٹو کیساتھ گہری عقیدت رکھتی ہے۔
عمران: (سسکنا،پرعزم)
اسے بس کچھ وقت چاہیے۔ آئیے اسے مزید مسلہ نہ بنائیں۔صفدر آہستہ سے بولا میں نے کافی کا آرڈر دے دیا ہے۔

عمران نے ایکسٹو سر پر ایک نظر ڈالی، جو ابھی تک اس عورت کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے، اس کی وجہ سے ہونے والے تناؤ سے بالکل بےخبر لگ رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد عمران فیصلہ کن انداز میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
عمران: میں سر ایکسٹو سے بات کروں گا۔ میں ابھی واپس آتا ہوں۔
عمران ایکسٹو کی میز کی طرف بڑھتا ہے، اس کے قدم مضبوط اور بامقصد ہوتے ہیں۔جیسے ہی وہ انکے قریب گیا، ایکسٹو اسے دیکھا اور فوراً پہچان کر مسکرا دیا۔
ایکسٹو ( ہاتھ ہلایا، دوستانہ انداز میں)
اے عمران! ارے، حیران کن آدمی. طویل وقت!
کے بعد یہاں کیسے؟
عمران: (واضح طور پر پرسکون لیکن براہ راست)
ارے،سر آپ یہاں کسی کے ساتھ ہیں، ہہ؟
ایکسٹو (مسکراتے ہوئے)
ہاں، بس ایک دوست سے ملاقات ہو رہی ہے۔ کوئی بڑی بات نہیں۔ کافی کیسی رہی جان؟
تبھی، ایکسٹو کے ساتھ بیٹھی عورت نے اسے ایک چنچل جھٹکا دیا، اور وہ آہستہ سے ہنسا۔
عمران: (سکون برقرار رکھنا)
ٹھیک ہے۔ میں صرف یہ یقینی بنانا چاہتا تھا کہ آپ ٹھیک ہیں۔۔
ایکسٹو ( تھوڑا سا پریشان)
سب اچھا ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔ ان سے ملئے یہ میری دوست ہے مس گیسی۔
عمران ایک لمحے کے لیے رکتا ہے، پھر اپنی میز کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے، جولیا کو دیکھا کہ وہ اب بھی پریشان دکھائی دے رہی ہے، حالانکہ وہ خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عمران: ( اتفاقاً ) ہیلو میم آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔عمران اپنا ہیٹ اتار کر جھکنے کے انداز میں بولا۔ ٹھیک ہے، پھر میں آپ کو آپ کی کافی سے لطف اندوز ہونے دوں گا۔ خیال رکھنا، سر۔
ایکسٹو (مسکراتے ہوئے)
بعد میں پکڑوانا عمران۔ خیال رکھنا، یار۔
عمران مڑ کر میز کی طرف واپس چلا گیا جہاں تنویر اور جولیا بیٹھے تھے۔ جیسے ہی وہ واپس آیا، جولیا اس کی طرف راحت اور دیرپا اضطراب کے ساتھ دیکھتی ہے۔
جولیا: (آہستگی سے) کیا تم نے اس سے بات کی؟
عمران: (سر ہلاتے ہوئے، اطمینان سے)
ہاں۔ سب کچھ ٹھیک ہے، جولیا. وہ ابھی کافی پی رہے تھے۔ مزید کچھ خاص نہیں۔ تم ٹھیک ہو؟
جولیا آہستہ آہستہ سانس چھوڑتی ہے، اس کا جسم تھوڑا سا آرام دہ محسوس کر رہا تھا اب۔*
جولیا: (خاموشی سے)
مجھے نہیں معلوم کہ اس نے مجھے اتنا سخت کیوں پریشان کیا۔ میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی تھی… لیکن اسے…اس چیڑیل کو اس کے ساتھ… اسے دیکھ کر…مجھے تکلیف ہوئی۔
پتہ نہیں یہ چیڑیل کون ہے؟
عمران: (اس کے پاس بیٹھ کر)
میں سمجھتا ہوں۔ لیکن تم اس سے زیادہ مضبوط ہو۔ اور یہ صرف ایک کافی ہے۔ جو ہے وہ یہ ہے. آپ اسے اپنے کنٹرول میں تو نہیں کر سکتے۔
تنویر: (حمایت سے)
آپ ہم مل گئے ہیں، جولیا۔ ہم یہاں ہیں۔ ہمیشہ ساتھ رہے گے۔ہم تو کہی نہیں گئے نہ۔
جولیا اپنے اردگرد اپنے دوستوں کے درمیان پرسکون محسوس کرتے ہوئے دھیمے سے مسکراتی ہے۔
جولیا:
(سسکنا، سر ہلانا) شکریہ، لوگو۔ میں اب ٹھیک ہوں۔ واقعی میں۔
وہ تینوں پیچھے بیٹھ جاتے ہیں، خاموشی سے کافی کا گھونٹ پی رہے ہیں، جولیا آہستہ آہستہ اپنا سکون بحال کر رہی ہے۔ کھڑکی کے باہر، لوگوں کو آتے جاتے دیکھ رہی ہے، لیکن اس چھوٹی سی کافی شاپ میں، وہ سب صرف تھوڑا سا سکون تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مگر عمران کی نظریں مسلسل سر ایکسٹو اور حسین لڑکی پر تھی۔
اچانک سر ایکسٹو اور وہ لڑکی اٹھتے ہیں اور بل ادا کرکے کافی شاپ سے باہر نکل جاتے ہیں۔
دس منٹ بعد عمران بھی تنویر سے کہتا ہے چلو یار ابھی تمھارا رشتہ کرانا ہے۔
مگر کہاں؟
ارے یار محبت شادی دفتر۔
وہی محبت شادی دفتر جو اسی کافی شاپ کے سامنے ہے؟ صفدر بولا۔
ہاں وہی چلو سب چلتے ہیں۔
عمران،تنویر شادی دفتر کے اندر داخل ہوتے ہیں۔
شادی دفتر اندر سے کافی ڈیکورئٹڈ اور سجا ہوا تھا۔جگہ جگہ خوبصورت لڑکیوں کی تصاویر دیواروں پر آویزاں تھی۔
مگر اچانک عمران جیسے ہی کاونٹر کی جانب موڑے۔
اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
کاونٹر پر وہی خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔جو تھوڑی دیر پہلے ایکسٹو سر کیساتھ کافی شاپ میں تھی۔
ہیلو میم! آپ اور یہاں۔
ہاں مسٹر عمران میں یہاں جاب کرتی ہوں۔
میں ڈارلنگ ایکسٹو سے یہی آفس میں ملی تھی۔
مگر کس سلسلے میں؟
وہ دارصل اپنے لئے رشتہ دیکھنے آئے تھے۔
مگر مجھے دیکھتے ہی مجھ پر لٹو ہو گئے۔شرماتے ہوئے۔
اوہ! اچھا میم ویسے اس محبت شادی دفتر کو کون چلا رہا ہے؟
عمران جی! ایک غیر ملکی خاتون ہے میڈیم ارینا وہ اس دفتر کی مالک ہے۔انکا تعلق لندن سے ہے۔
اچھا میڈیم سے ہماری ملاقات کروائے پلیز۔
ہیلو میڈیم! مسٹر عمران اپنے بھائی تنویر کیساتھ آئے ہے۔جی ٹھیک ہے۔
فون رکھتے ہوئے۔
مسٹر عمران آپ اندر جا سکتے ہیں۔
مس جولیا اور صفدر آپ دونوں ہال میں انتظار کریں۔
کیا میں اندر آ سکتا ہو؟
جی شوق سے تشریف رکھئے۔
آپکی تعریف؟
میڈیم میرا نام علی عمران ہے۔
اور یہ میرے چھوٹے بھائی ہے۔یعنی پانچ منٹ چھوٹے مجھے انکے رشتے کے لئے کوئی اچھی لڑکی چائیے۔
جی ضرور آپ یہ فائل دیکھئے۔
عمران فائل دیکھتا ہے اس میں لاتعداد لڑکیوں کی تصاویر اور کوائف درج تھے۔
نہیں۔۔۔نہیں میڈیم یہ تو ساری سانولی لڑکیاں ہیں۔مجھے صاف رنگت والی بھابھی چائیے۔
اچھا یہ دوسری فائل لئجئے۔
عمران فائل دیکھتا ہے۔ہاں یہ لڑکی ٹھیک ہے۔
مسٹر عمران اس کا نام کیتھرین ہے۔اور یہ لڑکی لندن سے تعلق رکھتی ہے۔
یہ پاکشیا میں شادی کرنا چاہتی ہے۔
آپ لوگ کاونٹر پے تیس ہزار روپے فیس جمع کروا دیں۔میں آپکوبعد میں فون پے اطلاع دے دونگی۔
اچھا میڈیم اب میں اجازت چاہوں گا۔
چلو تنویر چلتے ہیں۔
ایک عظیم الشان، پرتعیش ہال۔ کمرہ شاندار فرنیچر سے بھرا ہوا ہے — بھرپور مخمل کے پردے، گہرے پالش کی چمکیلی لکڑی، اور چمکتے ماربل کا فرش۔ کمرے کے بیچ میں، اونچی پشت والی کرسی پر بیٹھے ہوئے، ایک بوڑھا آدمی ہے—اس کا چہرہ برسوں کے تجربے اور خباثت سے بھرا ہوا ہے۔ وہ محافظوں کے ایک بڑے سے گروپ سے گھرا ہوا ہے، نقاب پوش پہرے دار خاموشی سے کھڑے ہے، ان پہرہ داروں کی موجودگی میں بوڑھا آدمی پرسکون نظر آتا ہے، لیکن اس کی آنکھیں تیز، حساب کتاب کی ماہر لگتی ہے۔ اس کے قریب ایک ورزشی اور کسرتی جسم والا بدمعاش سام کھڑا ہے، جو ایک ماہر اور پروفیشنل ایجنٹ ہے، جو گہرے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھا، اس کے چہرے کے تاثرات کافی سخت ہے۔
بزرگ آدمی: (اس کی آواز گہری، پرسکون اور حکم دینے والی)
سیم، تم نے اچھا کیا. جو جلد آ گئے آپ کی ساکھ اور بدنامی آپ سے آگے چلتی ہے۔ لیکن اب، میرے پاس آپ کے لیے کچھ مخصوص کام ہے۔
سام: (اس کا اظہار غیر جانبدار، لیکن توجہ سے)
میں سن رہا ہوں۔باس!
بزرگ آدمی:(روکتا ہے، تھوڑا سا آگے جھکتا ہے)
میں چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے ایک کام کرو۔اور وہ کام یہ ہے کہ تم کیتھرین کے بھائی کا کردار ادا کرو اور اسکی شادی پاکشیا میں کرواو۔
سام (ایک ابرو اٹھا کر درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے)
کیتھرین کا بھائی؟ لیکن- پاکشیا میں ہی شادی کیوں؟
بزرگ آدمی: (روکتے ہوئے، اس کا لہجہ مضبوط)
ہاں، کیوں کہ میں چاہتا ہوں۔کہ کیتھرین کی شادی پاکشیا میں ہو۔اور تم کبھی پاکشیا گئے ہو؟
سیم: (تھوڑا الجھا ہوا لیکن توجہ مرکوز) نہیں باس مگر میں نے سنا ہے کہ جنوبی ایشیا کا ایک پسماندہ ملک ہے۔میں سمجھ گیا کہ
آپ چاہتے ہیں کہ میں کیتھرین کے خاندان سے ہونے کا بہانہ کروں؟ لیکن کیوں؟
بزرگ آدمی: (اس کی نظریں سخت ہوجاتی ہیں، اور وہ جان بوجھ کر سنجیدگی سے بولتا ہے)
کیونکہ کیتھرین کسی سے شادی کرنے والی ہے۔اور وہ پاکشیا سے تعلق رکھتا ہے۔اس طرح ہمیں موقع مل جائے گا پاکشیا آنے جانے کا۔کیونکہ پاکشیا واحد مسلمان ملک ہے جو یہودیوں کو ویزہ نہیں دیتا۔اور اسی لئے ہم اس سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکتے۔مگر اس شادی کی آڑ میں ہم رشتہ دار بن کر آسانی سے آ جا سکتے ہیں۔ایسی شادی جس سے بہت سوں کو فائدہ پہنچے گا—سوائے اس تنویر کے۔ آپ اسے روکنے کی کلید ہوں گے۔اور اس تنویر کو شادی کے ایک ہفتے بعد جان سے مار دینگے۔سمجھ گئے سام۔
سام:(آہستہ سر ہلاتے ہوئے، داؤ کو سمجھتے ہوئے)
آپ چاہتے ہیں کہ میں شادی ہونے دوں۔ لیکن میں پھر اپنے ہی سالے کو مار دو مگر کیوں؟ کیوں باس؟
بزرگ آدمی:(آہیں بھرتے ہوئے، اپنی کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے، اس کے الفاظ کا وزن بھاری تھا) اس لئے کہ ہم یہودی چاہتے ہیں کہ دنیا کا ہر مسلمان مر جائے۔۔۔مر جائے۔۔یہ غریب کتے اس سرزمین پر مجھ سے برداشت نہیں ہوتے۔ہم دنیا کی افضل قوم ہے۔
سام: (توقف کرتے ہوئے، نیچے دیکھتے ہوئے، کام کی پیچیدگی پر غور کرتے ہوئے)
آپکو کیا لگتا ہے باس کہ وہ مجھ پر بھروسہ کرے گے؟ وہ مجھے نہیں جانتے۔
بزرگ آدمی: (دھیرے سے مسکراتے ہوئے، اس کی آنکھیں خاموش اعتماد سے چمک رہی ہیں)
کیونکہ میں تمہیں وہ سب کچھ دوں گا جس کی تمہیں ضرورت ہے۔ پس منظر، روابط، تاریخ۔دولت،بزنس،نام سب کچھ اصلی کاغذات اس کے پاس آپ پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔ وہ یقین کرے گے کہ آپ اس کے طویل عرصے سے کھوئے ہوئے بھائی ہیں۔
سام:(سر ہلاتے ہوئے، چیلنج کو قبول کرتے ہوئے)
ٹھیک ہے باس میں یہ کام آسانی سے کر لونگا۔تنویر کو مارنا میرے لئے مچھر کے مارنے کے برابر ہے۔
بزرگ آدمی: (اس کی آواز نرم ہو جاتی ہے لیکن آنکھیں ٹھنڈی رہتی ہیں) میں جانتا ہوں ایجنٹ سام کہ آپ دنیا کی خطرناک تنظیم ساراجہ میں بھی رہ چکے ہیں۔اور قتل و غارت کے معلومات آپکے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
سام: (اس کا اظہار عزم کے ساتھ سخت ہوتا ہے)
سمجھ گیا میں یہ معاملہ ختم کر دوں گا۔
بزرگ آدمی: (اس کا لہجہ تیز)
ہم وہ کرتے ہیں جو ضروری ہے، سیم۔ ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی کو کوئی شک نہ ہو کہ آپ اس کے اصلی بھائی نہیں ہیں۔ اگر آپ کو جھوٹ گھڑنے کی ضرورت ہے تو کچھ بھی کریں۔ دوسری بات آپکو پاکشیا میں بہت محتاط رہنا ہو گا۔کیونکہ وہاں کی سیکرٹ ایجنسی بہت ہی تیز اور سفاک ہے۔اگر ایک ایجنٹ کو بھی تم پر شک پڑ گیا۔تو وہ تمھیں مار دینگے۔
سام:(ایک لمحے کے لیے رک کر بزرگ کی نظروں سے ملتے ہوئے)
باس آپ فکر نہ کریں اس پسماندہ ملک کی سیکرٹ ایجنسی بھلا مجھے کیا کہے گی۔سالے غریب بھکاری لوگ۔
بزرگ آدمی: (ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ، سرد اور حساب لگاتے ہوئے)
اب جاؤ۔ یہ آپ کا مشن ہے۔
سام:(کھڑا ہوتا ہے، اپنا سوٹ سیدھا کرتا ہے، آگے کام کے لیے تیار ہے)
میں ناکام نہیں ہوں گا باس۔
سام مورس کے آفس سے نکلتا ہے۔
ہاں بھئی سب لوگ تیار ہو؟ عمران صفدر سے فون پر بات کرتے ہوئے۔
ہاں ہم تیار ہے۔میں نے تو اپنے لئے عروسی شیروانی بھی خرید لی ہے کریم کلر کی۔
ہاہاہاہا! صفدر تمھاری شادی نہیں ہے سمجھے بلکہ ہیرو ذیشان نصر کی شادی ہے۔ہم نے صرف سر سلطان کی جانب سے اٹینڈ کرنا ہے۔اور بس۔
تنویر اور جولیا کو بھی تیار رہنے کا کہو۔آج رات دو بجے ہماری فلائیٹ ہے۔
ہم آج ہی ایکریمیا جائے گے۔
اوکے باس جیسے آپکا حکم اور صفدر فون کاٹ دیتا ہے۔اور پیکنگ میں لگ جاتا ہے۔
یہ اس وقت کون دروازے پر گھنٹی پے گھنٹی بجائے جا رہا ہے۔
میرے پیارے سیلمان پاشا جاو دیکھو یہ بےوقت کون آیا ہے؟
میں فارغ نہیں ہوں صاحب آپ خود دیکھ لیں۔
کیوں تم کیا ارتغل کیطرح جنگ لڑ رہے ہو؟
صاحب یہ ارتغل کون ہے۔
یہ سلطنت عثمانیہ کے بانی تھے۔
اچھا سلطنت پاکشیا کے ٹاپ سیکرٹ بندے میں جا کے دیکھتا ہوں۔
شکر ہے مان گیا۔یہ خانساماں ہے یا مصیبت۔
کون ہے بتاو؟
صاحب موٹر سائیکل پر ایک باوقار اور بھاری بھر کم شخصیت پوچھ رہی ہے کہ عمران صاحب کب ایکریمیا جا رہے ہیں؟
ارے کم بخت صاف کیوں نہیں بولتے کہ محکمہ سراغ رسانی کے سپرنٹنڈنٹ سپر فیاض آئے ہے۔
جا کر اسے اندر بلاو۔
صاحب وہ پٹیچھر موٹر سائیکل پر آئے ہے ۔۔
جو ڈو ڈو ڈز ڈز ہم ہم کر رہی ہے وہ خود نہیں آرہے جلدی میں ہے۔آپ بتائے میں پیغام دے دیتا ہوں۔
فیاض صاحب جلدی میں ہے۔
اچھا جاو اسے یہ لیٹر دے دو۔
فیاض نے سیلمان سے لیٹر لیا اور پھٹیچر موٹر سائیکل یہ جا وہ جا۔
صاحب سپر فیاض ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے چلے گئے۔۔
عظیم الشان شادی ہال ہنسی اور خوشی سے بھرا ہوا ہے۔ مہمان آپس میں ملتے ہیں اور رقص کرتے ہیں کیونکہ ماحول ہی خوشی کا اور شادمانی تہوار کا ہوتا ہے۔ کیمرہ جولیا پر زوم کرتا ہے،جولیا سٹائل کیساتھ تصاویر بنواتی ہے۔اچانک جولیا گرتے گرتے بچتی ہے کیونکہ اسکی نظر اچانک ایک خوبصورت لباس میں ایک خوبصورت ماڈرن لڑکی، جو غیر متوقع طور پر سر ایکسٹو کے ساتھ رقص کر رہی تھی -ایکسٹو سر منہ پے نقاب لئے ایک پراسرار شخصیت جو اپنی عجیب اور مقناطیسی شہرت کے لیے مشہور ہے۔ماہرانہ انداز میں اس لڑکی کیساتھ ڈانس کر رہے تھے۔
جولیا ( مسکراتے ہوئے، الجھن میں )  میں… اس کی بالکل توقع نہیں کر رہی تھی سر۔
عمران ( مسکراہٹ، انتہائی پرسکون )
کبھی کبھی غیر متوقع واقعات سے زیادہ خوشی لاتت ہے. جیسے میں اور تم اور ہمارا رقیب تنویر ویسے اتنی حیرانی کیوں؟
کیمرہ عمران، ذیشان نصر، دولہا کو بار بار پوز کر رہا ہے۔
وہ دیکھو سامنے۔
عمران (خود سے)  یہاں کیا ہو رہا ہے؟ کہا دیکھوں؟ جولی ڈارلنگ تمھاری آنکھوں میں؟
بکو مت سامنے دیکھو۔
اوہ! یہ تو ایکسٹو سر ہے مس گیسی کیساتھ ڈانس کر رہے ہے۔
ویسے اس عمر میں لوگ کبھی کبھی سٹھیا جاتے ہیں مس جولی ڈارلنگ۔نیور مائنڈ۔
اچانک، تنویر، بہترین آدمی، قدم بڑھاتا ہے اور عمران اور جولیا کے قریب آتا ہے۔ وہ پرسکون انداز میں حالات کو سنبھالتا ہے۔
تنویر ( حکم بھری آواز میں )
ٹھیک ہے، سب! آئیے اسے مزے سے ہم بھی رقص کریں، کیا ہم؟ جولیا، ایکسٹو، مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو ڈانس فلور کے لیے تھوڑی اور جگہ کی ضرورت ہے، ہے نا؟
ویسے میں بتانے آیا تھا کہ شادی ہال میں سب کے چہروں پر ماسک چڑھے ہوئے ہیں۔
وہاں میز پر ہر طرح کے ماسک پڑے ہیں۔مس جولیا آپ بھی ایک ماسک پہن لیں تاکہ ہم بھی ڈانس کر لیں۔کیونکہ یہ شادی یورپی انداز میں ہو رہی ہے۔
*موسیقی چلتی رہتی ہے، اور تنویر مہارت سے صورتحال کو سنبھالتا ہے کیونکہ جولیا اور ایکٹو الگ ہو جاتے ہیں۔ لیکن پھر، کچھ عجیب ہوتا ہے۔
جسٹ شٹ اپ تنویر تمھیں ڈانس کی پڑی ہے۔
جبکہ میرے قدموں تلے زمین سرک چکی ہے۔
نجانے یہ ڈائن کہاں سے سر ایکسٹو کو چپک پڑی۔
کمینی کہی کی۔
بری بات مس جولیا عمران سمجھاتے ہوئے۔

شادی ہال میں لائٹس ٹمٹما رہی ہیں۔ اچانک اندھیرا چھا جاتا ہے اور ہال کی بجلی چلی جاتی ہے۔ موسیقی بھی رک جاتی ہے۔ الجھن کا لمحہ ہے جب مہمان آپس میں بڑبڑاتے ہیں۔ پھر، مکمل اندھیرا۔ مہمانوں سے کمرہ بھر جاتا ہے کیونکہ مہمانوں کو احساس ہوتا ہے کہ ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں۔
صفدر (پریشان) یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
یہ تو جدید اور سہولتوں والا ملک ہے ایکریمیا یہاں تو طوفان میں بھی بجلی نہیں جاتی۔
تنویر ( گھبرا کر )  بہت اندھیرا ہے… ایمرجنسی لائٹنگ کہاں ہے؟
تمھیں ایمرجنسی لائٹ کی پڑی ہے۔جولیا بولی۔
ارے عمران بھی تو نہیں ہے۔
ابھی تو یہی موجود تھا۔
منظر مکمل طور پر سیاہ ہو جاتا ہے، اور چند لمحوں بعد، بجلی بحال ہو جاتی ہے۔ ہال کی لائٹس واپس آ جاتی ہیں، اور سب کچھ نارمل لگتا ہے –
شکر ہے بجلی آ گئی جولیا خوش ہوئی۔
اچانک ہال میں چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی ہے۔
ہر کوئی گھبرا اور پریشان ہو جاتا ہے۔
ہال کے بیچ میں فرش پر بے حرکت لیٹی دولہا ذیشان نصر کا بے جان جسم پڑا ہوتا ہے۔
عمران لاش کی طرف بھاگتا ہے، صدمے سے اس کا چہرہ بکھرا سا لگتا ہے۔ تنویر قریب سے پیچھے پیچھے چلتا ہے، اس کا چہرہ بھی فق پڑ جاتا ہے۔ مہمان گھبراہٹ میں ہیں، آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ عمران جسم کا معائنہ کرنے کے لیے جھک جاتا ہے۔
عمران
( حیران ) نہیں… نہیں! یہ نہیں ہو سکتا!
تنویر اپنا حوصلہ برقرار رکھتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ابھی تو دولہا بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔
تنویر ( سکون سے )
عمران، ہم گھبرا نہیں سکتے۔ ہمیں اسے نارمل طریقے کی طرح ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔سب لوگ ہٹ جائے۔ آئیے اس جگہ کو محفوظ بنائیں۔کوئی یہ حد کراس نہ کریں۔نہ کسی چیز کو ہاتھ لگائیں۔میں سی آئی ڈی پولیس کو اطلاع کرتا ہوں۔
عمران حکام کو کال کرنے کے لیے اپنا فون نکالتا ہے۔ وہ اپنے طریقے سے نشانوں کی جانچ کرتا ہے، لیکن کچھ بھی واضح نہیں ہے۔اور کوئی مشکوک آدمی نظر نہیں آتا صرف مہمان ہی ہوتے ہیں۔
عمران ( بھاگنا ) نہ کوئی خون ہے، نہ کوئی ہتھیار… موت کی کوئی واضح وجہ نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ ابھی مر گیا ہو۔مگر کیسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
جاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button