
ٹی ایم اے ٹانک جو اب ایک سفید ہاتھی کی شکل اختیار کرچکا ہے جسکی کرپشن کی داستانیں ہرزبان زدعام ہیں جہاں ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن کے پیسے نہیں مگر ٹی ایم اے کی اہم اور کماؤ پوسٹوں پر قابض چند اہم افراد کا ٹولہ کروڑپتی بن چکا ہے۔اس قابض مافیا کی جائیدادوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو ڈی آئی خان،ٹانک،بھکر، ایبٹ آباد میں اس ٹولے کی کروڑوں کے بنگلے اور کمرشل دکانیں موجود ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ سب محکمہ اینٹی کرپشن کی ناک کے نیچے کیسے ہوتا رہا ہے؟
ٹی ایم اے ذرائع کے مطابق ٹانک شہر میں اس وقت ٹی ایم اے کی کروڑوں روپے کی پراپرٹیاں ہیں مگر انکو کوڑیوں کے مول لیز پر دیا گیا ہے۔ کمیٹی باغ کے ساتھ،سول ہسپتال کے ساتھ،ٹریفک پوائنٹ کے ساتھ واقع ٹی ایم اے کی دکانوں کا فی دکان کرایہ تین ہزار روپے لیز پردیا گیا ہے جب کہ حقیقت میں لیز لینے والا بندہ انھیں دکانوں سے 15 سے 80 ہزار تک کرائے وصول کررہا ہے۔ اسی طرح محصول چنگیوں کی مد میں ماہانہ لاکھوں روپے وصول کرکے ٹی ایم اے کے اکاؤنٹ میں جمع نہیں کرایا جاتا۔ ڈیرہ بس سٹینڈ میں واقع دو درجن سے زائد دکانوں سے فی دکان4ہزار روپے وصول کرکے ٹی ایم اے کو صرف 500 روپے کے حساب سے پیسے دئیے جاتے ہیں۔ پرانے گرڈ کے ساتھ واقع لنڈا بازار کے دکانداروں سے فی دکان 7000 روپے وصول کرکے ٹی ایم اے کو صرف 500 روپے دئیے جارہے ہیں۔ واپڈا کالونی کے ساتھ واقع موٹرکار اڈوں،گھاس پھونس اور مرغی فروشوں سے فی دکان5تا7ہزار وصول کرکے ٹی ایم اے کو کچھ نہیں دیا جارہا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان تمام ٹھیکوں کی نہ تو کوئی شفاف بولی ہوئی ہے اور نہ ہے اسکی تفصیلات منظرعام پر آئی ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ان تمام ٹھیکوں اور لاکھوں روپے کی وصولیوں سے ٹی ایم اے پر عرصہ دراز سے قابض کروڑپتی ٹولہ مکمل مستفید ہورہا ہے۔اس کے علاوہ ٹیوب ویلوں ، مشینری،جنریٹروں اور تیل کی مد بوگس بلوں کے ذریعے سے لاکھوں روپے کے بل نکالے جاتے ہیں۔ تہہ بازاری، رکشہ سٹینڈز،سے روزانہ کے حساب سے الگ وصولیاں جاری ہیں۔عوضی سسٹم کے تحت مختلف اہلکاروں سے ڈیوٹی نہ کرنے کے عوض ماہانہ 10 ہزار لئے جاتے ہیں جو صرف انکی اپنے جیبوں کی نذر ہورہے ہیں۔عوامی حلقوں کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹی ایم اے کے تمام ٹھیکوں،لیزوں کو کینسل کراکر دوبارہ شفاف طریقے سے منظور کرائے جائیں تاکہ ٹی ایم اے کی آمدن بڑھائی جاسکے اور ٹی ایم اے کے اہم کماؤ پوسٹوں پر تعینات کروڑپتی مافیا کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کی جائیں۔