پاکستانی سائنسدان سموگ برداشت کرنے والی آلو کی اقسام تیار کرنے میں مصروف

Spread the love

لاہور۔17دسمبر (اے پی پی):پوٹیٹو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (پی آر آئی) ساہیوال کے سائنسدان سموگ اور دھند جیسے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی آلو کی اقسام تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں۔محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق صوبے میں تقریبا دس لاکھ ایکڑ رقبے پر آلو کاشت کیا جاتا ہے جبکہ سالانہ اوسط پیداوار تقریبا نو ملین ٹن ہے۔تاہم بدلتے ہوئے موسمی حالات اور اسموگ کی بڑھتی ہوئی سطح کے باعث فصل کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔پوٹیٹو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ساہیوال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید اعجاز الحسن نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسموگ اور پالا آلو کی فصل کی نشوونما کیلئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پیداوار میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے اسموگ برداشت کرنے والی آلو کی کئی اقسام پر کام جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت میں اضافہ،بارش کے انداز میں تبدیلی اور پانی کی دستیابی میں کمی جیسے متعدد عوامل آلو کی پیداوار میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اسموگ ضیائی تالیف (فوٹوسنتھیسز) کے عمل کو متاثر کرتا ہے،بلائٹ جیسی بیماریوں کے پھیلائوکو بڑھاتا ہے اور گانٹھوں (ٹیوبرز) کے مجموعی معیار کو کم کر دیتا ہے۔پنجاب میں آلو کی فصل کو متاثر کرنے والی دیگر بیماریوں میں پوٹیٹو لیف رول وائرس (پی ایل آر وی)،پوٹیٹو وائرس وائی (پی وی وائی)،موزیک وائرس،ابتدائی بلائٹ، بران لیف اسپاٹ،رائزوکٹونیا،کامن اسکیب اور بلیک لیگ شامل ہیں۔ڈاکٹر اعجاز الحسن نے بتایا کہ پی آر آئی اب تک دھند برداشت کرنے والی اور زیادہ پیداوار دینے والی آلو کی12 اقسام تیار کر چکا ہے اور اب اسموگ برداشت کرنے والی اقسام پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔مقامی طور پر تیار کی گئی اقسام میں پی آر آئی ریڈ،روبی، صدف، ساہیوال ریڈ،ساہیوال وائٹ،راوی، پنجاب، ستلج، کشمیر، سیالکوٹ ریڈ، اعجاز۔22 اور کاسمو شامل ہیں۔

کاشتکاروں کی جانب سے استعمال کی جانے والی درآمدی بیج اقسام میں کانسٹینس،کوروڈا،ایس می، روڈولف،الویٹ، ایمانیوئل، فیبیولا، فیلزینا (فرائز کیلئے)، فرانسی لائن،فریشیا، سبابا،الوورسٹون رسٹ،ہرمو سا، ایلیسن، ڈیزائری، کارڈینل اور ڈائمنٹ شامل ہیں۔پی آر آئی کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ مقامی طور پر تیار کی گئی اقسام میں اعجاز۔22 ایک ایسی آلو کی قسم ہے جو خاص طور پر اسموگ کیلئے تیار کی گئی ہے اور اس نے پنجاب میں اسموگ زدہ حالات میں کامیابی سے برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس سال پی آر آئی نے 60 ہزار کلوگرام (60 ٹن) آلو کا بیج تیار کیا،جس میں سے 4,550 کلوگرام (4.55 ٹن) کاشتکاروں میں تقسیم کیا گیا۔تاہم معیاری اور تصدیق شدہ مقامی بیج کی بڑی مقدار میں عدم دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے،جس کے باعث کاشتکار مہنگے درآمدی بیج پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ڈاکٹر اعجاز الحسن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مربوط کیڑوں کے تدارک اور پائیدار زرعی طریقوں کے فروغ سے آلو کی فصل پر اسموگ کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔آلو کے کاشتکاروں کی کوآپریٹو سوسائٹی کے نائب چیئرمین چوہدری مقصود احمد جٹ نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ آلو کا زیادہ تر بیج نیدرلینڈز سے درآمد کیا جاتا ہے،جس سے کاشتکار کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کی معطلی سے آلو کی برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کولڈ اسٹوریج میں آلو بھرے ہوئے ہیں جبکہ نئی فصل پہلے ہی منڈی میں آ چکی ہے۔چوہدری مقصود احمد جٹ نے کہا کہ پاکستان کم از کم37 ممالک کو آلو برآمد کر سکتا ہے اور جنوری سے اپریل کے دوران چین پاکستانی آلو کیلئے ایک اہم منڈی بن سکتا ہے۔انہوں نے ویلیو ایڈیشن کے فروغ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آلو کو پائوڈر، نشاستہ اور چپس جیسی پراسیس شدہ شکلوں میں برآمد کیا جانا چاہیے تاکہ زائد رسد سے بچا جا سکے،قیمتوں میں استحکام آئے اور کاشتکاروں کے نقصانات کم ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button