چترال کے دوردراز علاقوں میں بنیادی صحت کے حوالے نمایاں خدمات انجام دینے والے سی ایم ڈبلیوزکوتعریفی شیلڈزسے نوازاگیا

Spread the love

تحریر:سیدنذیرحسین شاہ

آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان (چترال) کے صحت مند خاندان پراجیکٹ کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں کمیونٹی مڈوائیوز(سی ایم ڈبلیوز) کو صحت کے شعبے میں ان کی شاندار خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا، جس میں چترال کے دونوں اضلاع سے تیس کمیونٹی مڈوائیوز نے شرکت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سیمینار کا مقصد چترال کی پہلی کمیونٹی مڈوائف محترمہ لغل زمرد (مرحومہ) کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کرنا تھا۔ یاد رہے لغل زمرد (مرحومہ) نے 1967 میں کراچی سے مڈوائفری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اے کے ایچ ایس پی کے ساتھ تقریبا 37 سال تک خدمات سرانجام دیں اور انتہائی نامساعد حالات میں چترال کے دور دراز علاقوں میں صحت سے متعلق آگاہی پھیلانے اور بنیادی مراکز صحت میں عوام کی خدمت کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر فیاض علی رومی ڈی ایچ او لوئر چترال تھے جبکہ صدارت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال کے ایم ایس ڈاکٹر حیدرالملک نے کی۔ دیگر مہمانان میں ڈی ایچ او اپر چترال ڈاکٹر ارشاد احمد، خورشید علی ڈی پی ڈبلیو او، پی ڈبلیو ڈی اپر چترال ،میربائض ڈپٹی ڈی پی ڈبلیواو لوئر چترال، رضا شاہ سوشل ارگنائزر ایم این سی ایچ پروگرام اور محترمہ حمیدہ یونس کوارڈینیٹر ایل ایچ ڈبلیو پروگرام اپر چترال شامل تھیں۔
ریجنل پراجیکٹ منیجرصحتمند خاندان پراجیکٹ افسر جان نے آغا خان ہیلتھ سروس کی طرف سے شرکاء اور مہمانوں کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ صحتمند خاندان پراجیکٹ کے ذریعے سی ایم ڈبلیوز کو دئے گئے ٹریننگز، برتھنگ اسٹینشنز کی مرمت اور تزئین ارائش کے ساتھ دوسرے کاموں کا بھی احاطہ کیا۔ انہوں نے رواں سال جنوری سے اکتوبر تک سی ایم ڈبلیوز کی کارکردگی بھی پیش کی اور نامساعد حالات میں بہترین کارکردگی دکھانے پر سی ایم ڈبلیوز کو خراج تحسین پیش کیا۔
سوشل آرگنائزر ایم این سی ایچ پروگرام، رضا شاہ نے سی ایم ڈبلیو پروگرام کی تاریخ اور اعراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنے ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام 2006 میں شروع ہوا اور چترال میں اس کی ابتدا 2008 میں ہوئی۔ یہ پروگرام اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف 4 اور 5 کا احاطہ کرتا ہے جس میں نومولود بچوں اور ماؤں کی شرح اموات کو کم کرنا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے صوبے میں 1984 سی ایم ڈبلیوز نے ٹریننگ حاصل کی ہے جس میں سے 1384 اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ جبکہ 600 سی ایم ڈبلیوز کی ابھی تک ڈیپلائمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ جبکہ چترال میں 108 سی ایم ڈبلیوز کو ٹریننگ دی گئی جس میں سے 47 اس وقت خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی ایم ڈبلیوز کی ذمہ داریوں میں صحت کے حوالہ سے آگاہی پھیلانا، عام او پی ڈی، نارمل ڈیلیوری کروانا اور زچگی کے بعد ماں اور بچے کا معائنہ کرنا شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ دور دراز علاقوں تعینات ہونے کی وجہ سے ان سی ایم ڈبلیوز کا کام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
اسسٹنٹ منیجر پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ قدرالنساء نے کہا کہ اے کے ایچ ایس پی نے گورنمنٹ کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے تحت سال 2008 میں ڈی ایچ ڈی سی میں سی ایم ڈبلیو ٹریننگ اسکول کا قیام عمل میں لایا جہاں 37 سی ایم ڈبلیوز کو تربیت دی گئی، جن میں سے 29 دور دراز علاقوں میں خدمات فراہم کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی ایم ڈبلیوز اے کے ایچ ایس پی کے ہب اینڈ اسپوک ماڈل کا ایک اہم ستون ہیں جس کے تحت صحت کے شعبے میں خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
سی ایم ڈبلیوز کی نمائندگی کرتے ہوئے زینب بی بی اور عجب النساء نے کہا کہ جس طرح تعلیم کے شعبے میں ای سی ڈی اہم ہے ایسے ہی صحت کے شعبے میں سی ایم ڈبلیوز کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اپنے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو ہم اے این سی، پی این سی، اور ڈیلیوریز کرواتے ہیں لیکن حقیقی طور پر دیکھا جائے تو کمیونٹی کیلئےہم مکمل ہیلتھ پروفیشنلز ہیں، کیوں کہ صحت کے حوالہ سے ان کی سب سے پہلی منزل ہم ہیں، اس لئے ہماری کارکردگی کو صرف ڈیلیوری کے پیمانے پر نہ دیکھا جائے۔ زینب بی بی نے کہا کہ ہمارے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ہم دن رات کسی بھی صورتحال سے نمنٹنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ہم غریب لوگوں کا معائنہ مفت میں کرتے ہیں اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہوسکے بہتر خدمات مہیا کریں، لیکن مسائل بہت زیادہ ہیں اور وسائل بہت کم۔ ہمارے پاس اوزارا ور دوائیوں کی کمی ہے اور ایم این سی ایچ کی طرف سے اعزازیہ بھی عرصہ دراز سے بند ہے جس کی وجہ سے بہت ساری سی ایم ڈبلیوز تندہی سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے سی ایم ڈبلیوز کیلئے موبائل ایپ متعارف کروانے پر اے کے ایچ ایس پی کا شکریہ ادا کیا۔ اور کہا کہ اس سے ہمارے کام میں بہت اسانی ہوگی اور ہماری کارکردگی اعلی حکام کی نظروں میں اجائے گی۔ سی ایم ڈبلیوز کی نمائندوں نے اے کے ایچ ایس پی کے کردار کو سراہا جس کی وجہ سے ان کے کام میں نکھار ایا ہے اور خدمات کی فراہمی بہتر ہورہی ہے۔ انہوں نے ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ سے مطالبہ کیا کہ ان کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے چترال کی پہلی مڈوائف لغل زمرد (مرحومہ) کو ان کی شاندار خدمات کیلئے خراج تحسین پیش کیا۔
آغاخان ہیلتھ سروس کے ریجنل ہیڈخیبرپختونخوا اورپنجا ب معراج الدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اے کے ایچ ایس پی اور محکمہ ہیلتھ الگ نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں ادارے ایکدوسرے کے دست و بازو ہیں۔ ہمارے درمیاں مثالی رابطہ کاری ہے اور ہم مل کر کام کرتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت دوسرے اضلاع کے مقابلے میں ہماری کارکردگی ہے۔ انہوں نے سی ایم ڈبلیوز کی خدمات اور مشکل حالات میں کام کے اعلی جذبے کو شاندار الفاظ میں سراہا۔ انہوں نے کہا کہ چترال کے مخصوص جغرافیائی حالات اور پھیلی ہوئی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سوچنا کہ ایک سی ایم ڈبلیو 5000 کی آبادی تک رسائی کرپائے گی، بہت مشکل ہے۔ اسی لئے سی ایم ڈبلیوز کیلئے سوشل فرنچائزنگ کے ذریعے مالی فوائد حاصل کرنا بہت مشکل ہے، اس لئے چترال کیلئے سی ایم ڈبلیو کے بنیادی پلان پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے تاکہ سی ایم ڈبلیوز کے اندر کام کا مذید جذبہ اور شوق پیدا ہو۔ انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ اے کے ایچ ایس پی کے جاری پراجیکٹس اور انے والے ہر پراجیکٹ میں سی ایم ڈبلیوز کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔
محترمہ لغل زمرد کے فرزند اصغر علی المعروف فدائی ثانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ماں اور خاندان کی قربانیوں کا ذکر کیا، اور کہا کہ قربانی کے بغیر کوئی بھی عظیم کام سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے سی ایم ڈبلیوز کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ چاہے ہمارے پاس جتنے بھی اچھے ڈاکٹرز ہوں اور ہسپتال کی سہولت ہو لیکن ہم اس وقت تک صحت کی سہولیات کمیونٹی کی دہلیز پر نہیں پہنچاسکتے جب تک ہمارے پاس ایسے محنتی کمیونٹی ورکر موجود نہ ہوں۔ فدائی ثانی نے کہا کہ سی ایم ڈبلیوز کو چاہیئے کہ وہ اپنا کام نوکری نہیں بلکہ عبادت سمجھ کے کریں جس طرح ان کی ماں نےکیا تھا۔
ڈی ایچ او اپر چترال، ڈاکٹر ارشاد احمد نے شرکاء سے مخاطب ہوکر کہا کہ محکمہ صحت اور اے کے ایچ ایس پی ایک ہی ٹیم ہیں۔ ہم مل کر کام کرتے ہیں اس لئےہمارے صحت کے اعشاریے باقی آضلاع سے بہت بہتر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی ایم ڈبلیوز ہمارے ہیرو ہیں ان کے بغیر صحت کا شعبہ نا مکمل ہے۔
تقریب کے مہمان خصوصی ڈی ایچ او لوئر چترال، ڈاکٹر فیاض علی رومی نے لعل زمرد مرحومہ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2007 میں 2015 تک کیلئے ماؤں کی اموات کم کرنے کیلئے جو ہدف رکھا گیا تھا ایک لاکھ میں سے 144 تھا، لیکن آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں یہ شرح 186 ہے ۔ 2029 تک کیلئے جو ہدف مقرر کیا گیا ہے وہ 98 ہے ۔ ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں بہت محنت کرنی ہوگی۔ سی ایم ڈبلیوز پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر اپ محنت کریں گے تو عوام میں اپ کی قبولیت میں اضافہ ہوگا اور اپ کا کام پائیدار بنیادوں پر اگے بڑھے گا۔ انہوں نے سی ایم ڈبلیو پروگرام کے سوشل فرنچائزنگ ماڈل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد کسی کو نوکری فراہم کرنا نہیں بلکہ صحت کے شعبے میں پرائیوٹ سیکٹر کو نچلی سطح پر فروغ دیکر پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنا ہے ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ اے کے ایچ ایس پی صحت کے شعبے میں محکمہ صحت کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کررہا ہے، چاہے وہ ٹریننگ کے حوالہ سے ہو یا مشین مہیا کرنے یا مراکز صحت کی مرمت اور تزئیں و آرائش کی صورت میں ہو۔
اپنے صدارتی خطبے میں ڈاکٹر حیدر الملک نے کہا کہ آج خوشی کا دن ہے، کیوں کہ جو سی ایم ڈبلیوز گمنامی میں اپنا کام کررہے تھے ان کے کام کو سراہنے کیلئے تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح لغل زمرد نے لگن سے کام کیا اور قربانی دی اگر ہر سی ایم ڈبلیو اسی جذبے سے کام کرے گی تو کمیونٹی کے اندر اپ اعتبار حاصل کرپائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مالی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا اپ کیلئے کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر حیدر نے کہا کہ آج بھی ڈی ایچ کیو ہسپتال میں نارمل ڈیلیوری کےلئے مائیں آتی ہیں، بہت ساری مائیں خون کی کمی کے ساتھ اتی ہیں اور دوران زچگی پیچدگی کی صورت میں سرجری کیلئے خاندان کی اجازت ملنے میں 20 سے 30 گھنٹے لگتے ہیں۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ عوام میں صحت کے بارے آگاہی کی بہت ضرورت ہے۔ اور یہ کام سی ایم ڈبلیوز بہت بہتر انداز میں کر سکتی ہیں۔ انہوں نے سی ایم ڈبلیوز کی حوصلہ افزائی کیلئے سیمینار منعقد کرنے پر اے کے ایچ ایس پی کا شکریہ ادا کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ ادارہ اپنا کردار ائندہ بھی احسن طریقے سے ادا کرے گا۔
پروگرام کے دوران لغل زمرد (مرحومہ) کا اپنی وفات سے دو مہینے پہلے ریکارڈ شدہ انٹرویو بھی دکھایا گیا جس میں انہوں نے اپنی تعلیم، مڈوائفری ٹریننگ، اور 37 سال تک ادارے کے ساتھ اپنی وابستگی، دور دراز علاقوں میں کام کے تجربے، مشکلات اور اپنے خاندان کی قربانیوں کا تفصیل سے ذکر کیا۔
سیمینار کے آخر میں چترال کی پہلی مڈوائف لغل زمرد (مرحومہ) کو ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں اے کے ایچ ایس پی کی طرف سے شیلڈ دیا گیا جسے ان کے فرزند اصغر علی المعروف فدائی ثانی نے وصول کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیمینار میں شریک سی ایم ڈبلیوز کو بھی ان کی محنت، لگن اور صحت کے شعبے میں بے لوث خدمات کیلئے شیلڈ دئے گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button