
تحریر:اسماعیل انجم
ہمارے ملک میں اگرچہ انتخابی معرکہ سر ہوا ہے تاہم سرد موسم کے باوجود سیاست پھر بھی گرم ہے، ان حالات میں اچھے خاصے دوست بھی بعض اوقات سیاسی بحث کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، لہذا دوستوں کی محفل میں ضروری ہے کہ بحث کو ہلکے پھلکے انداز میں لیا جائے، ایک دوسرے کو نشتر سے گدگدی تو کی جائے مگر خیال رہے کہ کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔
آخر جن لوگوں کی خاطر ہم اپنے عزیز دوستوں سے ناراض ہوتے ہیں، ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم نے ان کے لیے کتنی پرانی دوستیاں قربان کر دیں۔
فرینڈز گروپ میں متعدد دوستوں کا خیال ہے کہ سیاست ایسے موضوع ہے جن پر تبادلہِ خیال دوستی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اسی لیے اکثر محفلوں میں ایسے موضوعات سے احتراز کیا جاتا ہے ۔
میرے ایک دوست نے ایک دفعہ مجھ سے کہا ’جن موضوعات سے ہم احتراز کرتے ہیں دیگر دوست ان ہی موضوعات پر بحث کرتے ہیں‘ ان کی بحث کئی دفعہ غصے ‘ نفرت اور تلخی میں بدل جاتی ہے اور دوست دشمن بن جاتے ہیں۔
میرا ذاتی موقف یہ ہے کہ اگر دوستی سطحی ہے تو دوستوں کو ان موضوعات سے احتراز کرنا چاہیے لیکن اگر دوستی گہری ہے تو ان موضوعات پر تبادلہِ خیال دوستی کو تقویت بھی پہنچا سکتا ہے۔
ڈائلاگ دوستی کی بنیاد ہے۔ جس سے انسان ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔
مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ دو انسان ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔
میرے دوستوں کے حلقے میں‘ جسے میں FAMILY OF THE HEART کہتا ہوں‘ مختلف مکاتبِ فکر کے دوست موجود ہیں۔
بعض دوست ایک سیاسی جماعت پر ایمان رکھتے ہیں بعض انکے مخالف سیاسی جماعت پر اور بعض کسی ایک سیاسی جماعت پر بھی نہیں.
بعض دوست فوج کے حق میں ہیں اور بعض اس کے خلاف ۔ بعض اسے ملک کے لیے رحمت اور بعض مجبوری سمجھتے ہیں۔
چونکہ میری ان سب سے دوستی ہے اس لیے میرا سب سے مکالمہ ہوتا رہتا ہے۔
بعض مذہبی سچ کو مانتے ہیں بعض روحانی سچ کو۔ بعض سیکولر سچ کو دل سے لگائے ہوئے ہیں بعض سائنسی سچ کو۔
ان تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود سب دوست ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دوستی کا راز یہ ہے کہ ہم اپنے سچ کے ساتھ مخلص ہوں اور دوسرے کے سچ کی عزت کریں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنے سچ کی تبلیغ کرنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ دوست کھونا شروع کر دیتا ہے۔
میں نے زندگی میں ان لوگوں سے زیادہ سیکھا ہے جو میرے ہم خیال نہ تھے۔ اختلاف الرائے کا تعلق دوستی سے ہے دشمنی سے نہیں کیونکہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔کسی دانشور سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ کو اپنی شخصیت کے کس پہلو پر فخر ہے ؟ وہ کافی دیر سوچتے رہے پھر کہنے لگے میں نے تیس برس کی عمر میں یہ جانا کہ میرا سچ ایک عام سچ ہے کوئی حتمی سچ نہیں ہے
My truth is A truth not THE truth
میری نگاہ میں سطحی دوستی سیاست کے مکالمے سے کمزور ہو سکتی ہے اور گہری دوستی اور بھی مضبوط۔۔ یہ مکالمہ انفرادی سطح پر بھی ہو سکتا ہے اور معاشرتی سطح پر بھی۔ ’ہم سبُ اس کی عمدہ مثال ہے۔ یہ وہ فورم ہے جس پر لوگ بھرپور تبادلہِ خیال کرتے ہیں۔ اتفاق بھی کرتے ہیں اختلاف بھی۔ یہی وہ ماحول ہے جو معاشرے میں دوستی کی فضا تیار کرتا ہے۔
لیکن اس تمام صورتحال کے باوجود بھی ہم آشنا پرست واقع ہوئے ہیں سیاست پرست نہیں، کیوں کہ آشنا پرست جب سیاسی وابستگی کا شکار ہوتا ہے تو اس کی پہلی ضرب اس کے خلوص، ایمان داری اور صداقت پر پڑتی ہے۔ وہ سچ بولنا چاہتا ہے مگر سیاسی مصلحت اسے ایسا کرنے سے باز رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں تو سیاسی وابستگیاں روزمرہ کا بدلنے والا ایک عمل بن چکا ہے۔ کھوٹے کھرے کی پہچان مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ آپ سیاہ کے خلاف سفید کا ساتھ دیتے ہیں لیکن کچھ وقت کے بعد محسوس کرنے لگتے ہیں کہ یہ اُجالا بھی داغ داغ ہے۔ ہمارے مُلک میں تو بد قسمتی سے تبدیلی کے نام پر ہر انقلابی تحریک نے کامیابی کے بعد ایک نئے قسم کی آمریت اور بیوروکریسی کو جنم دیا ہے۔ ایسے میں آشنا پرستی اور سیاست پرستی میں دراڑ آجانے سے اہل دانش نے ان تحریکوں کی پشت پناہی کرنے والوں اور انسان کی فکر و نظر کے خلاف عناصر سے چشم پوشی کی ۔ جس کے نتیجے میں درباریوں کی اکثریت ہو گئی اور میڈیا پر ہم ان کے قصیدے روزانہ سن رہے ہوتے ہیں ۔
سیاسی اور تہذیبی سطح پر جس معاشرے میں فکر و خیال کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہو وہاں اہل سیاست اور دانشوروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ قوم کو درپیش صورتحال کے بارے سوچیں۔کیا ہمارے درمیان ایسے سیاست پرست اور آشنا پرست موجود ہیں جو اس دوستی میں پائی جانے والی دراڑ کو ختم کر سکیں ؟
ہم پوجتے ہیں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست!
مرزا رفیع سودا کے مطابق…
ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست
پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست
اس دور میں گئی ہے مروت کی آنکھ پھوٹ
معدوم ہے جہان سے چشم حیا پرست
دیکھا ہے جب سے رنگ کفک تیرے پاؤں میں
آتش کو چھوڑ گبر ہوئے ہیں حنا پرست
چاہے کہ عکس دوست رہے تجھ میں جلوہ گر
آئینہ دار دل کو رکھ اپنے صفا پرست
آوارگی سے خوش ہوں میں اتنا کہ بعدِ مرگ
ہر ذرہ میری خاک کا ہو گا ہوا پرست
خاک فنا کو تاکہ پرستش تو کر سکے
جوں خضر مت کہائیو آب بقا پرست
سوداؔ سے شخص کے تئیں آزردہ کیجیے
اے خود پرست حیف نہیں تو وفا پرست