آئین پاکستان کی ارٹیکل 218 شق 3 کےمطابق الیکشن کمیشن اف پاکستان کا سب اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ایمانداری کیساتھ شفاف انتخاب کی انعقاد کے لیے تمام تر اتنتظامات کرے۔ تاکہ انتخاب کی شفافیت کو یقینی بنا یا جاسکے۔ شفاف انتخاب کی انعقاد کیے لیے حلقہ بندی کرنا انتہائی ضروری ہے جو کہ الیکش کمشن اف پاکستان کے ذمداری ہے ائین پاکستان کی ارٹیکل 222 کی تحت حلقہ بندی کو الیکشن ایکٹ 2017کے شق 20 کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کیا جائے۔ مذکورہ حلقہ بندوں کو ذکر شدہ اصولوں کے عین مطابق کرنے کیے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کے شق 17 کی تحت ایک کمیشن بنایا جائیگا جوکہ تمام تر وضع کردہ اصولوں کے مطابق حلقہ بند یوں کا عمل سرانجام دیگا۔ اگر پھر بھی کسی کو مذکورہ حلقہ بند ی کی نسبت اعتراض ہو تو ان کو اپنے اعتراض کو کمیشن کے سامنے رکھنے کے لیے پورا موقع دیا جائیگا۔ اس کی بعد الیکشن کمیشن آخری لیسٹ جاری کریگا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کامبٹ اور درنگال یونین کونسلز کو تمام تر حقائق کی منافی ایک خاص گروہ کی خوشنودی کی خاطر ایک ایسی حلقہ کا حصہ بنایا گیا ہے جوکہ کبھی بھی ایک دوسری کیساتھ کسی بھی طرح کی ایک حلقہ ہونے کے لوازمات پورا نہیں کرتے۔
عرصہ دراز سے جندول لوئیر دیر صوبائی اسمبلی کا ایک انتخابی حلقہ رہا ہے ۔ جو کہ کھبی بھی تقسیم نہیں ہوا ہے ۔ تاہم پچھلی بار جب حلقہ بندیوں کا ڈرافٹ پروفوزل تیار ہو ا تو حیران کن طور پر تحصیل ثمرباغ کے یونین کونسل کامبٹ، درنگال اور مسکینی کو تحصیل میدان لعلہ قلعہ کیساتھ جو کہ کل پانچ یونین کونسلز پر مشتمل ہے ایک حلقہ PK-17 بنایا گیا۔ مذکورہ پروفوز حلقہ بندیوں کے لسٹ کی نسبت سماجی و سیاسی کارکن علی شاہ مشوانی جوکہ یونین کونسل درنگال سے ان کا تعلق ہے نے الیکشن کمیشن میں درخواست اس استدعا کیساتھ دائیر کی کہ ذکر شدہ یونین کونسلز کو بعد از تمام تر حقائق کا جائیزہ لینے کے بعد تحصیل ثمرباغ (جندول ) کے حلقہ PK-16 Mمیں شامل کیا جائے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے تمام تر حقائق کو ایک بار پھر نظر انداز کرتے ہوئے درخواست خارج کی۔ مذکورہ حلقہ جوکہ ائین پاکستان اور الیکشن ایکٹ 2017 کے وضع کردہ اصولوں کا منافی تھا سے منتخب شدہ ممبر صوبائی اسمبلی کا ذیادہ تر توجہ میدان کے پانچ نویین کوسلز پر رہا ۔ جبکہ دو یونین کوسلز جوکہ تحصیل ثمرباغ کے تھے ہر قسم کے ترقیاتی کاموں سے محروم رہے۔
بدقسمتی سے میدان کیساتھ پیوست تحصیل ثمرباغ کا یونین کونسل ثمرباغ ہے۔ لیکن یونین کونسل ثمرباغ کو چھوڑ کر صرف دوں یونین کونسلز کو شامل کیا ہے ۔ جوکہ کسی بھی صورت میدان تحصیل کیساتھ کوئی لنک نہ ہے۔ یونین کونسل درنگال جوکہ قدرتی حسن سے مالامال ہے میں ویلج کونسل شاہی پاک افغان باڈر ڈیورڈ لائن پر واقع سیاختی مقام ہے ۔ لیکن صوبائی اسمبلی کی ممبر کے عدم دلچسپی کیوجہ زبوحالی کی شکار ہے ۔ یونین کو نسل درنگال کی بیشتر گاؤں میں اب بھی بجلی موجود نہ ہے سڑ کیں کنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ سکولز اور ہسپتال نہ ہونے کی برابر ہے ۔ لڑکیو ں کی تعلیم کی شرخ صفر ہے ۔ مریض دودراز علاقوں سے تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال ثمرباغ لاتے لاتے راستے میں دم توڑ تے ہیں۔
اس بار جب الیکشن کمیشن نے موجودہ مردم و خانہ شماری کی بعد جب دیر لوئیر میں نئی حلقہ PK-18کااضافہ کیا اور یونین کونسل کامبٹ اور درنگال کو دوبارہ اپنی تحصیل ثمرباغ کیساتھ ملا کر ایک حلقہ بنایا تو لوگوں کے دلوں میں ترتی اور خوشحالی کی کرن پیدا ہوا۔ دیر ائید درست ائید۔ اب جوکہ کچھ امید پیدا ہوا ہی تھا کہ کچھ موقعہ پرست سیا سی افراد جوکہ ان کا تعلق بھی مذکورہ دو یو نین کونسلز سے نہ تھا نے فی ا لفور الیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔ الیکشن کمیشن نے تمام تر حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے خوشنودی کی خاطر فورآً حامی بھرلی اور دونوں یونین کونسلز کو دوبارہ میدان میں شامل کیا۔ اس بار صرف ایک احسان ضرور کیا کہ حلقہ کا نام تبدیل کرکے PK-17سےPK-18کردیا گیا ۔
الیکشن کمیشن اف پاکستان نے ایک تو ان لوگوں کی منشا ئ پر حلقہ میں حلاف قانون و ائین پاکستان تبدیل کرکے جوکہ مذکورہ بالا دو یونین کوسلز میں سے کسی ایک سے بھی ان کا تعلق نہیں ہے ۔ دوسری طرف الیکشن کمشن اف پاکستان نے دونوں یونین کونسلز میں سے کسی بھی فرد کو نہیں سنا ہے ۔ جوکہ قانون کے بنیادی اصولوں کا منا فی ہے ۔ لہذا الیکشن کمیشن اف پاکستان کا فیصلہ جانبدارنہ اور سرعت میں ہونے کی وجہ سے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے ۔
کالم تحریر۔ حبیب الرحیم ایڈووکیٹ