چترال(سیدنذیرحسین شاہ نذیر)آغاخان رورل سپورٹ پروگرام چترال کے ای سی پراجیکٹ یورپی یونین کی مالی معاونت سے یونیورسٹی آف چترال میں "ہم ملکرصنفی تشددکے خلاف کھڑے ہیں” کے موضوع پرایک روزسمینارکاانعقاد کیاگیا۔ سمینارسے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی معروف عالم دین شاہی خطیب شاہی مسجدچترال مولاناخلیق الزمان کاکاخیل نے کہاکہ خواتین مسلمان معاشرے میں ماں، بیوی،بیٹی اور بہن کے مقدس رشتوں میں جڑی ہوئی ہے جب کہ مغرب میں صرف معاشی مشین ہے۔اسلام میں عورتوں کے جتنے حقوق ہیں دنیا کے کسی بھی مذہب میں اتنے حقوق نہیں دیئے گئے ہیں۔بعض علاقوں میں جہالت کی وجہ سے مسلمان معاشرے میں بھی عورت کے حقوق سلب کر لیے ہیں ۔اسلام میں عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیں اسلامی تاریخ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر خواتین کو بہت احترام بخشا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ معاشرے میں خواتین کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں۔
اس موقع پرایک پینل ڈسکشن میں پینلسٹ مولاناڈاکٹرمحب الرحمن،مولاناانورنبی،لیکچررڈاکٹرحافظ ،ڈاکٹرنظام الدین ،اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسرڈاکٹرسیدفہدحسین جان،پولٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈپروفیسربشارت حسین نے کہاکہ صنفی بنیاد تشدد سے مراد یہ ہے کہ کسی فرد پر اس کی جنس کی بنیاد پر تشدد کیا جائے۔ صنف کی بنیاد پر اس امتیازی رویے کی جڑیں صنفی عدم مساوات، طاقت کا غلط استعمال اور فرسودہ معاشرتی اصول ہیں۔ جنسی اور جنس کے بنیاد پر تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور صحت عامہ کا مسئلہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں35 فی صد خواتین کو اپنی زندگی میں جنسی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ ان اعداد و شمار میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی میں خواتین کے حقوق پر توجہ دی ہے خاندان اور معاشرے میں ان کے کردار کو نہ صرف ہمیشہ سراہا بلکہ ان کے استحصال کی مذمت بھی کی۔ اسلام میں خواتین کے مقام کے بارے پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنا ہے۔پینلسٹ نے کہاکہ قوام متحدہ کے مطابق صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد میں جنسی، جسمانی، ذہنی اور معاشی طورنقصان پہنچانا شامل ہوتا ہے اور یہ نقصان کھلے عام یا نجی طور پر پہنچایا جاتا ہے۔ اس میں زبردستی، ہیرا پھیری اور تشدد کی دھمکیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ خواتین کے حقوق، خواتین کے خلاف تشدد کو ختم کرنے تعلیم، صحت اور ملازمت کے یکساں مواقع فراہم کرنےکے حوالے سے آگاہی گھرگھر پہنچے کی ضرورت ہے۔مقریریں نے اے کے آرایس پی اور یورپی یونین کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ چترال خواتین کو معاشرے کا ایک کار آمد رشہری بنانے میں مصروف عمل ہیں۔