جاسوسی ناول؛ ایکسٹو کی شادی

Spread the love

آخری حصہ

بلیک آؤٹ تنظیم کے یہودی ان کا پیچھا کرتے ہیں ، ان کی ہر حرکت میں تناؤ اور جلدی کو محسوس کیا جا سکتا ہے، کیونکہ مورس کا ڈر انکے ساتھ دوڑ رہا تھا۔جیسے ہی شہر کی روشنیاں ختم ہوتی ہیں، اور وہ نامعلوم راستے میں داخل ہوتے ہیں۔
ساری رات انہیں چکروں میں گزر گئی۔
(ایک وسیع و عریض صحرا۔ سورج تپ رہا ہے۔ عمران اور صفدر، ریت کے ٹیلے کے کنارے پر ایک پرانا نقشہ لیے کھڑے ہیں۔ وہ نقشے کو دیکھتے ہیں، پھر افق کی طرف، یار سورج نکل چکا ہے گرمی بڑھ رہئ ہے)
عمران: (اٹکتے ہوئے) یہ ہے۔ نقاط یہیں ہیں۔خفیہ اڈہ یہی ہے… ہم بالکل ٹھیک سمت میں آئے ہیں۔
صفدر: (بھاگتے ہوئے) لیکن ہم اندر کیسے داخل ہوں گے؟ نقشے میں خاردار تاروں سے گھرا ہوا علاقہ دکھایا گیا ہے… اس میں سے بجلی چل رہی ہے۔
یہاں جانا تو موت کو دعوت دینا ہے۔ہمارا روسٹ بن جائے گا۔
اب روسٹ بنے یا مرغ مسلم ہم تو جائے گے۔عمران بولا۔اسکا حوصلہ تو چٹان سے بھی مضبوط لگ رہا تھا۔کوئی خوف کوئی ڈر نہ تھا۔
(وہ دونوں افق کی طرف دیکھتے ہیں، جہاں یہ علاقہ تیز خاردار تاروں کی سے گھیرا ہوا ہے۔ بجلی کی ہلکی ہلکی گونج سنائی دیتی ہے۔)
صاف پتہ لگتا تھا کہ تاروں میں بجلی دوڑ رہی ہے۔
عمران: (فکر سے) ہمیں ان سب تاروں کو کاٹنا ہو گا۔ان تاروں سے بجلی منقطع کرنے کا طریقہ سوچنا ہوگا۔
صفدر: (اشارہ کرتے ہوئے) عمران سامنے دیکھو چار پانچ نقطے نظر آ رہے ہیں ان جاڑیوں کے پاس ذرا دیکھو —
ارے ہاں واقعی یہ تو نقاب پوش آدمی ہیں ۔ میرے خیال میں وہ احاطے کی حفاظت کر رہے ہیں۔ لڑائی کے بغیر ہمارے اندر جانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔تنویر اپنی رائے دینے لگا۔
عمران: (مسکراتے ہوئے) نہیں… ضروری نہیں۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے۔مجھے صرف ایک لمحے کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے۔
میں کچھ کرتا ہوں۔
(عمران ایک گہرا سانس لیتا ہے اور علاقے کو اپنی تیز نظروں سے مکمل اسکین کرتا ہے۔ اسے اچانک خیال آتا ہے۔)
عمران: صفدر، یاد ہے وہ سرنگیں جو ہمیں پچھلے ہفتے وادی کے قریب ملی تھیں؟ وہ اس اڈے سے منسلک ہو سکتے ہیں۔
صفدر: (سر ہلاتے ہوئے) آپ کو لگتا ہے کہ ہم ان میں سے چپکے سے گزر سکتے ہیں؟
عمران: (عزم کے ساتھ) جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے۔
چلو وادی کی جانب چلتے ہیں۔پیدل ہی پہنچ جائے گے۔تھوڑا دور ہے۔
(وہ تیزی سے آگے بڑھتے ہیں، ٹیلے سے نیچے پھسلتے ہوئے، ایک چٹانی میدان کی طرف بڑھتے ہیں جہاں ایک پوشیدہ راستہ ہو سکتا ہے۔)
(ایک تنگ، تاریک سرنگ کے اندر۔ پانی کے ٹپکنے کی آواز ان کے ارد گرد گونجتی ہے۔ عمران اور صفدر ٹارچ کا استعمال کرتے ہوئے احتیاط سے حرکت کرتے ہیں۔اور آگے بڑھتے ہیں)
صفدر: *(سرگوشی کرتے ہوئے) یہ جگہ ان ذلیل یہودیوں نے زیر زمین بنائی ہے۔… یہ خوفناک اور سنسان راستہ ہے۔
عمران: (واپس سرگوشی کرتے ہوئے) توجہ مرکوز رکھیں۔ ہم قریب ہیں۔.راستے میں بدمعاش بھی ہو سکتے ہیں۔
(وہ سرنگ کے آخر تک پہنچتے ہیں، اور ایک دھاتی دروازہ نظر آتا ہے۔ عمران کسی بھی حرکت کی آواز سنتے ہوئے اس کے خلاف کان لگاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ خاموشی سے ہینڈل موڑتا ہے اور اسے کھولتا ہے۔)
دروازہ آسانی سے نہیں کھلتا پھر عمران عبرانی زبان میں کچھ خفیہ کوڈ ڈائل کرتا ہے۔
تو دروازہ کھل جاتا ہے۔
واہ یار تم نے تو کمال کر دیا۔
یہ زیر زمین اڈا ہے۔اوپر صحرائی علاقہ اور بجلی کے تاروں سے گھیرا ہوا۔
(عمران اور صفدر ایک مدھم روشنی والے کوریڈور میں قدم رکھتے ہیں، جس میں جدید ٹیکنالوجی دیواروں پر لگی ہوئی ہے۔ ہوا ٹھنڈی ہے، اور پس منظر میں بہت زیادہ جدید مشینری ہوتی ہے۔)
صفدر: (خوف سے) یہ… یہ تو بڑی جدید دنیا ہے۔ یہ کسی سائنس فائی فلم کی طرح لگتا ہے۔ سہولت کی ہر چیز موجود ہے۔لفٹ جدید شٹئر آٹو میٹک مشنیں۔خوراک کے بھرے گودام۔
عمران : (پرعزم) ہوشیار رہو۔ ہم یہاں اکیلے نہیں ہیں۔اور بھی بہت سے لوگ ہے۔
(وہ آگے بڑھتے ہیں، احتیاط سے ہر کمرے کو چیک کرتے ہیں۔ وہ ایک کمرے سے آنے والی آوازیں سنتے ہیں اور دیوار کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔)
یہ کمرہ خالی ہے۔
اندر دیکھو۔۔
عمران یہاں سارے بمب اور بارود بھرے ہوئے ہیں۔
اچھا ضرورت کے مطابق بمب لے لو اور ٹائم سیٹ کرکے جگہ جگہ لگاتے جاو۔
چلو آگے بڑھتے جاو سب۔
(کمرے میں، چھ مسلح افراد اردگرد کھڑے تھے، کچھ بات کر رہے ہیں۔ وہ سیاہ لباس میں ملبوس ہیں، ان کے چہرے ماسک سے ڈھکے ہوئے ہیں۔)
میں نے سنا ہے کہ باس نے پاکشیا کے خاص مسلمانوں کو قتل کرنے کا ٹارگٹ سام کو دیا ہے۔
جو جلد پاکشیا روانہ ہونے والا ہے۔کسی تنویر نامی مسلمان کو قتل کرینگے۔
تنویر یہ سب سن رہا ہوتا ہے۔
اچھا ذلیل کم زاد یہودیوں تم میری ہی موت کی پلاننگ کر رہے ہو۔
تنویر غصے سے اندر داخل ہوتا ہے اور اپنی سالینٹ پسٹل سے سب کے سروں کا نشانہ لیتا ہے۔
سب کے سب خون میں لت پت زمین پے پڑے ہوتے ہیں۔
صفدر: (سرگوشی کرتے ہوئے) ہم ان سب بموں کو ایک ساتھ نہیں لے سکتے۔ ہمیں الگ ہونا پڑے گا۔
اور ابھی تک ہمیں بلیک آؤٹ کے باس مورس کے کمرے کا بھی پتہ نہیں چلا۔
عمران: *(سر ہلاتے ہوئے) تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔میں سامنے کو سنبھال لوں گا۔ تم واپس دوسری راستے کیطرف موڑ جاو۔
(وہ خاموشی سے پوزیشن میں چلے جاتے ہیں۔ عمران ایک آدمی سے نمٹتے ہوئے کونے سے چھلانگ لگاتا ہے۔ اسی وقت صفدر پیچھے سے چارج کرتا ہے، دوسرے گارڈ کو ناک آؤٹ کرتا ہے۔ لڑائی تیز رفتاری سے ہوتی ہے، جس میں ہر ایک اپنا اپنااسلحہ استعمال کرتا ہے۔مگر عمران سب پر آسانی سے قابو پا لیتا ہے۔)

(ایک مختصر، شدید جدوجہد کے بعد، چھ آدمی فرش پر معذور پڑے ہوتے ہیں ۔)
واہ عمران یہ ایک خاص ٹیکنیک ہے کہ انسان کے جسم میں یہاں چوٹ لگائی جائے تو وہ ہلنے جلنے سے معذور ہو جاتا ہے۔
عمران: (سانس پکڑتے ہوئے) فی الحال یہ ان میں سے آخری ہونا چاہیے۔ چلو حرکت کرتے ہیں۔آگے بڑھو۔یہ یہودی تو ختم ہی نہیں ہو رہے۔
(وہ زیادہ محافظوں اور حفاظتی نظاموں سے گریز کرتے ہوئے راہداریوں سے گزرتے ہیں۔ بیس وسیع ہے، کمروں سے بھرا ہوا ہے جس میں جدید ہتھیاروں، مواصلاتی آلات اور عجیب و غریب آلات موجود ہوتے ہیں۔)
صفدر: (آگے ایک بڑے دروازے کو دیکھتے ہوئے) یہ وہیں ہونا چاہیے جہاں اصل راز ہیں۔

عمران: *(مسکراتے ہوئے) اصل راز ہاہاہاہا دیکھتے ہیں وہ کیا چھپا رہے ہیں۔
(وہ ہائی ٹیک ٹرمینلز پر کام کرنے والے سائنسدانوں اور تکنیکی ماہرین کے ایک گروپ کو تلاش کرنے کے لیے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ وہاں بڑی اسکرینیں ہیں جو انکرپٹڈ ڈیٹا دکھا رہی ہیں، اور کمرے کے بیچ میں ایک بہت بڑا سکرین سب جگہیں دیکھا رہا ہے۔)
عمران: *(سرگوشی کرتے ہوئے) یہ جگہ… یہ محض ایک اڈے سے زیادہ ہے۔ یہ ایک کمانڈ سینٹر ہے۔میں مزید سکرین آن کرتا ہوں۔جو بند پڑے تھے۔
ایک کمرے میں ایک اڈھیر عمر آدمی کچھ خاص فائل پڑھ رہا تھا۔
اسکے اردگرد چار باڈی گارڈ موجود پہرہ دے رہے تھے۔یہی ہے ہمارا ٹارگٹ۔ہاں یہی ہے۔
صفدر: (سر ہلاتے ہوئے) اور یہاں کے لوگ… وہ سپاہی نہیں لگتے۔ یہ ماہرین ہیں۔ دوسرے سکرین پے دیکھو۔
(عمران آگے بڑھتا ہے، محتاط انداز میں سائنسدانوں میں سے ایک کے قریب پہنچتا ہے جو ایک ٹرمینل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اس نے سائنسدان کو کندھے سے پکڑ کر گرد گھما دیا۔بتاو مجھے مورس کا کمرہ کونسا ہے ورنہ تمھاری گردن کی ہڈی تھوڑ دونگا)
نہیں میں نہیں بتا سکتا۔
مورس مجھے جان سے مار دے گا۔
اچھا تو وہ حرامی بڈھا تمھیں مار دے گا۔اور میں تمھیں زندہ چھوڑ دونگا کیا؟
اچھا اچھا رکو سامنے سے دائیں طرف ایک راہداری ہے وہاں آخری کمرہ باس کا ہے۔
عمران: (مطالبہ کرتے ہوئے) یہ کونسی جگہ ہے؟
سائنس دان: (گھبرا کر) یہ… یہ ایک سرکاری ہیڈ کوارٹر ہے۔ ہم توانائی کے ذرائع، ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی، اور… ایسی چیزوں پر تحقیق کر رہے ہیں جن پر آپ یقین نہیں کریں گے۔اور یہ سب ایجادات ہم مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے یہاں بنا رہے ہیں۔اسکی سرمایہ کاری ہماری حکومت اور ایکریمیا کی مدد سے ہو رہی ہے۔
صفدر: (سختی سے) آپ کس کے لیے کام کر رہے ہیں؟
سائنس دان: (ہچکچاتے ہوئے)ہم ایک نجی تنظیم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کا نام بلیک آوٹ ہے۔اسکا سربراہ مورس ہے۔حکومت بھی اس میں ملوث ہے… کم از کم، براہ راست نہیں۔مگر پیچھے سے۔
(اچانک الارم بجتا ہے۔ کمرے میں سرخ روشنیاں چمکتی ہیں۔)
عمران اس سائنسدان کو ایک ہی ضرب میں گرا دیتا ہے۔اور چند ہی سیکنڈوں میں ساکت پڑ جاتا ہے۔
چلو اس یہودی سے جان چھوٹی۔
عمران: (تھوڑا گھبرا کر) ہمیں بنایا گیا ہے۔کہ آخری کمرہ اس بڈھے کا ہے۔ ہمیں باہر نکلنے کی ضرورت ہے — ابھی!
(عمران اور صفدر راہداریوں سے پیچھے بھاگتے ہیں، قدموں کی آواز اور گارڈز کی چیخ و پکار ہال میں گونجتی ہے۔ وہ گولیوں سے بچتے ہوئے باہر نکلنے کی دوڑ لگاتے ہیں اور حفاظتی دروازے ان پر بند ہو جاتے ہیں۔)
صفدر: (سانس چھوڑ کر) ہم ان سب کا مقابلہ نہیں کر سکتے! ہمیں تیزی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے!
عمران : (آگے دیکھتے ہوئے) وہاں! ایک راستہ ہے باہر نکلنے کا! ہم اس سے گزر سکتے ہیں!
(وہ باہر نکلنے کے دروازے کی طرف بڑھتے کرتے ہیں، بالکل اسی طرح توڑتے ہیں جیسے پہلے۔بیس زیادہ تر محافظوں سے بھرا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ صحرا کی سورج کی روشنی میں ابھرتے ہیں، انہیں قریب آنے والے ہیلی کاپٹروں کی آواز سنائی دیتی ہے۔)
عمران: (آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے) ہمیں اشارہ مل گیا ہے۔ ہمیں غائب ہونے کی ضرورت ہے، جلدی!
باہر پہرہ داری سخت ہے۔واپس گھس جاو نیچھے۔
صفدر: (سر ہلاتے ہوئے) مجھے ایک آئیڈیا ملا ہے۔
ہم ایسے تو نہیں گزر سکتے۔
عمران چار بدمعاشوں کو گرا دیتا ہے۔
جلدی جلدی انکا لباس اتارو اور پہنو نقاب بھی پہن لو۔جلدی یہاں سے نکلنا ہے۔
اڈھیر عمر ایک ناہموار آدمی، مرکز میں کھڑا ہے، مٹھی بند ہے، آنکھیں غصے سے بھڑک رہی ہیں۔ لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اس کے پیچھے کھڑا ہے، ان کے چہروں پر الجھن اور خوف چھایا ہوا ہے۔
جب تک میں تمام مسلمانوں کو مار نہیں دیتا تب تک مجھے سکون نہیں ملے گا۔
اس کمرے سے کسی کی آوازیں آرہی ہے۔تنویر
ہاں یہی وہ کمرہ ہے۔عمران لات مار کے دروازہ کھولتا ہے۔
عمران (چلا کر):
اچھا آپ وہ لیڈر ہیں جس نے تمام لوگوں کو جکڑ رکھا ہے! تم اس جگہ ہم سے چھپے ہوئے تھے! بڑے چالاک آدمی ہو!
اچانک، ایک سایہ پس منظر میں حرکت کرتا ہے۔عمران کو پیچھے آہٹ سنائی دیتی ہے۔ گروپ گھبرا کر پوزیشن لیتا ہے۔
حملہ وار کا وار خطا جاتا ہے اور اسکی گولی کا نشانہ سامنے ایک نقاب پوش ہوتا ہے۔
عمران تیزی سے اٹھتا ہے۔
لیڈر، ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ ایک طاقتور شخصیت، ہاں میں ہوں مورس تم جیسے مسلمان کیڑے مکوڑوں کا دشمن۔وہ پرسکون اور منظم دکھائی دیتا ہے، سام پکڑو اس کو۔
لیڈر: آہ عمران۔ آپ کا جذبہ قابل تعریف ہے، لیکن گمراہ کن ہے۔ آپ واقعی یہ سوچ رہے ہے۔کہ اس اڈے سے زندہ نکل جائے گے ؟ یہ حکمت عملی پاگل پن ہے۔تم اپنی موت کے پاس خود آئے ہو۔
گروپ الجھا ہوا نظر آتا ہے۔
عمران آگے بڑھتا ہے، مٹھی کانپ رہی ہے۔ہاں میں تمھیں اور تمھارے جیسے ظالم یہودیوں کو جہنم پہنچانے آیا ہوں۔
ہاہاہاہا بےوقوف بچے ہو تم۔ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہے؟ چبیس ستائیس سال؟
اس سے ڈبل میرا تجربہ ہے
عمران: میں جانتا ہوں مکار بڈھے اور
حکمت عملی؟ تم نے مسلمانوں کو دھوکا دیا! ہمارے ملک پاکشیا میں فساد برپا کیا۔اب میں تم نہیں چھوڑوں گا۔یہ جس ہیڈ کوارٹر پر تمھیں اتنا اعتماد اور غرور ہے حرامی بڈھے!
یہ پندرہ منٹ بعد اڑنے والا ہے۔
تناؤ بڑھتا ہے جب مورس عبور اچانک چھلانگ لگاتے ہوئے ایک کریٹ سے پیچھے جھکتا ہے۔
لیڈر: دھوکہ دیا۔ نہیں، میرے دوست. میں نے صرف… رہنمائی کی ہے۔ کبھی کبھی، سچ وہ نہیں ہوتا جو آپ سننا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کا مرنا ہی اسکی مفاد میں اچھا ہے۔
غریب کیڑے مکوڑے۔
عمران پسٹل سے نشانہ لگاتا ہے۔
اور مورس اپنے سامنے سام کو دھکا دیتا ہے۔
گولی سام کے دل پر لگتی ہے۔اور وہی زمین پر گر جاتا ہے۔
عمران: ان لوگوں نے آپ پر بھروسہ کیا! ان سب کو آپ کے وژن پر یقین تھا! لیکن یہ سب جھوٹ ہے میں تو جانتا ہوں۔
مگر بڈھے تم نے اپنے ہی کارندوں کو دھوکہ دیا۔
سام تو تمھارا کتا تھا۔اسکو کیوں چارہ بنایا۔
لیڈر مسکراتا ہے، اس کا اعتماد اٹل ہے۔یہ سب میرے کتے ہیں۔میرے ٹکڑوں پر پلتے ہیں۔اگر ایک مر گیا تو کیا ہوا۔جنت میں اپنا مقام بنا لے گا۔
کونسی جنت ؟ بدبخت بڈھے
جہنم تم یہودیوں کا مقدر ہے۔
لیڈر: جسٹ شٹ اپ جاہل لڑکے۔
ہم یہودی دنیا کی افضل قوم ہے۔
ہم تو نصاری پر بھی توکتے ہیں۔
انکی حیثیت بھی ہمارے سامنے خنزیروں جیسی ہے۔
عمران کے قریب آتے ہی ایک گہری خاموشی، آواز دھیمی لیکن مضبوط۔
تم دونوں ہی جہنم کے کتے ہو۔
اصل جاہل تم لوگ ہو بڈھے۔
مارو اس کو مورس سامنے اپنے پہرہ داروں کو حکم دیتا ہے۔
اچانک، دس نقاب پوش ہتھیار لے کر داخل ہوتے ہیں۔ فضا دھماکہ خیز ہو جاتی ہے۔
اچانک پیچھے سے صفدر سب نقاب پوشوں کو لگاتار گولیوں سے بھون دیتا ہے۔سب یکے بعد دیگرے گرتے جاتے ہیں۔
اب کمرے میں مورس اور ایک نقاب پوش رہ جاتا ہے۔مورس نیچھے چھپا ہوا ہوتا ہے۔
گڈ ورک صفدر۔تنویر کیسا ہے؟
وہ باہر راستہ کلئر کر رہا ہے۔
باہر نکلو بزدل بڈھے۔
اگر تم یہودیوں کے آلہ کار ہو۔
عمران: تو ہم بھی عالم اسلام کے بہادر سپوت ہیں۔
تم جیسے کافروں سے نپٹنا ہم خوب جانتے ہیں۔اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں تم لوگوں نے اپنے ایجنٹ بیھجے ہوئے ہیں۔ان سے یہودی لڑکیوں کی شادی کروائی ہوئی ہے۔
اور بظاہر مسلمانوں کے روپ میں تمھارے کارندے ہیں۔مگر یاد رکھنا جب تم انکو روپے نہیں دوگے تو وہ تمھارے خلاف ہو جائیگے۔
جو اپنے ملک کا نہیں ہوتا وہ کسی کا نہیں ہوتا۔
باہر نکلو حرامی یہودی بڈھے۔
میں اس تنظیم کا لیڈر ہوں۔اور تمم لوگ اس عمر میں میرا کیا بگاڑ لوگے؟ مورس مسکراتے ہوئے دیکھتا ہے افراتفری پھیل رہی ہے۔اچانک وہ اپنے جیب سے زہر کا کیپسول نکالتا ہے۔ عمران چھلانگ لگاتے ہوئے مورس کے اوپر گرتا ہے۔
اسکا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔
بزدل یہودی جب پکڑے جاتے ہیں۔تو سائنڈ کے کیپسول کھاتے ہیں ڈر کے مارے۔
گھونسوں کے کلوز اپ شاٹس، عمران کے چہرے پر عزم ہوتا ہے۔وہ یہودی بڈھے کو خوب گھونسے مارتا ہے۔مسلمانوں کے قاتل ذلیل حرامی یہودی۔
ذیشان نصر نے تمھارا کیا بگاڑا تھا؟
مجھے ہر مسلمان سے نفرت ہے۔
مورس کے منہ سے کہراتے ہوئے آواز نکلتی ہے۔
عمران مورس کے سر پے زور دے وار کرتا ہے۔
اسکی کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔
اسکی آنکھیں ساکت ہو جاتی ہے۔
اور مر جاتا ہے۔
صفدر عمران کے ایک قدم قریب آتا ہے۔ آنکھیں آگ کی شعلوں سے بھری ہوئی آنکھیں۔
تنویر نے پورے ہیڈ کوارٹر میں بمب لگا دئے ہیں۔
اب ہمیں یہاں سے نکلنا ہے۔واپسی پے بلیک زیرو نے بتایا تھا ایک مقامی فلسطینی ہمیں بارڈر کراس کروا دے گا۔چلو نکلتے ہیں۔
جولیا باہر منتظر ہے۔
عمران: نہیں، میں سچائی کے لیے لڑنے والوں کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں۔
چلو نکلتے ہیں۔
تنویر،صفدر اور عمران دور سے دیکھ رہے تھے۔
ایک دم زبردست دھماکہ ہوا۔
اور مورس اپنے ہیڈ کوارٹر سمت جہنم رسید ہو چکا تھا۔
صاحب ٹی وی پے خبریں آرہی ہے۔
کہ ایک بہت بڑا ہیڈ کوارٹر نامعلوم فلسطینیوں نے تباہ کر دیا ہے۔
یہ تو اچھی بات ہے نہ سیلمان
جاو میرے لئے گرم گرم الائچی والی سبز چائے لاو۔
ختم شد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button