پنجاب نے سیڈ لیس اور رنگ دار کینو کی نئی اقسام پر کام شروع کر دیا

Spread the love

لاہور۔23دسمبر (اے پی پی):سٹرس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سی آر آئی) سرگودھا نے عالمی منڈی کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرنے کے لئے سیڈ لیس اور رنگ دار کینو کی نئی اقسام کی تیاری کا آغاز کر دیا ہے جو پنجاب میں سٹرس کی بہتری کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت ہے،پنجاب میں سٹرس کے زیر کاشت رقبے کا حجم 3 لاکھ 58 ہزار ایکڑ ہے جبکہ رواں سیزن میں پیداوار کا تخمینہ 33 لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا ہے۔سی آر آئی سرگودھا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر حیات سگّو نے کہا کہ موجودہ اقسام بین الاقوامی منڈی کی طلب سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتیں کیونکہ انحصار اب بھی روایتی بیج دار کینو پر ہے۔

ویلتھ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اکبر حیات سگّو نے کہا کہ ادارہ اس وقت رنگ دار اور سیڈ لیس کینو کی ایسی اقسام پر کام کر رہا ہے جن کی عالمی سطح پر بڑی طلب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی خریدار سیڈ لیس، آسانی سے چھلنے والی اور اعلیٰ معیار کی منڈی رین اقسام کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ پاکستان میں زیر کاشت زیادہ تر اقسام ان خصوصیات پر پوری نہیں اترتیں۔پاکستان میں سٹرس کی کاشت میں سب سے زیادہ حصہ کینو کا ہے جو ایک منڈی رین ہائبرڈ ہے اور عموماً ایک پھل میں تقریباً 20 بیج پائے جاتے ہیں۔

دیگر اقسام میں مصری، ویلینشیا لیٹ سنگترا، سکری، روبی ریڈ، یوریکا اور لسبن لیموں، اور کاغذی لیم شامل ہیں، جو بنیادی طور پر پنجاب خصوصاً سرگودھا میں کاشت ہوتی ہیں۔ڈاکٹر اکبر حیات سگّو نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی نے پنجاب میں کینو کی پیداوار پر نمایاں اثر ڈالا ہے، درجہ حرارت میں اضافہ، غیر معمولی بارشیں اور کیڑوں و بیماریوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے پیداوار کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھول آنے کے دوران گرمی کی شدت اور غیر مستقل سردیوں کے باعث پھل لگنے اور معیار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی رجحانات کے ساتھ ساتھ ان موسمیاتی مسائل کو بھی مدنظر رکھنا ہے جو اس وقت کینو کے باغات کو متاثر کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں مسلسل سموگ نے بھی کینو کی پیداوار کو متاثر کیا ہے کیونکہ یہ سورج کی روشنی کم کر دیتی ہے جو فوٹوسنتھیسز کے لئے ضروری ہے جس کے نتیجے میں پودوں کی بڑھوتری سست اور پھل کی نشوونما کمزور ہو جاتی ہے، سموگ آلودگی کو پھانس لیتی ہے جس سے درخت کمزور ہوتے ہیں اور بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اکبر حیات سگّو کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 100 اقسام کی سٹرس کاشت کی جا رہی ہیں جبکہ تحقیق اور ترقی کے لئے مزید 70 اقسام درآمد کی جا رہی ہیں تاہم دانشورانہ حقوق کی پابندیوں کے باعث درآمد شدہ اقسام کو بریڈر معاہدوں کے بغیر برآمد نہیں کیا جا سکتا۔سٹرس ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ پاکستان کو عالمی منڈی میں مسابقت کے لئے فوری طور پر نئی، بہتر معیار کی اقسام کی ضرورت ہے۔

پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد نے کہا کہ ہم موجودہ دہائیوں پرانی کینو اقسام کے ساتھ چین، ترکی اور بحیرہ روم کے ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ مختصر شیلف لائف اور زائد بیجوں کے باعث گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستانی کینو کی برآمدات 5 لاکھ 50 ہزار ٹن سے کم ہو کر 2 لاکھ 50 ہزار ٹن رہ گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روس تک شپمنٹ میں کم از کم ایک ماہ لگتا ہے، اور موجودہ کینو اقسام اتنی شیلف لائف نہیں رکھتیں۔وحید احمد نے کہا کہ پاکستانی سائنسدانوں کو عالمی منڈی میں مسابقت برقرار رکھنے کے لئے اب تک کم از کم تین سے چار نئی سٹرس اقسام متعارف کرا دینی چاہئیں تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button