
اسلام آباد۔19دسمبر (اے پی پی):ایویکیوز ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ (ای ٹی پی بی)پشاور اور سیالکوٹ میں واقع متعدد اہم سکھ مذہبی مقامات کی بڑے پیمانے پر بحالی کے منصوبے شروع کرنے والا ہے۔
’’ویلتھ پاکستان‘‘ کو دستیاب ایک دستاویز کے مطابق اس اقدام کے تحت پشاور کے دو نمایاں گوردواروں اور سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں واقع گوردوارہ ننک سر کی مرمت و بحالی پر توجہ مرکوز کی جائے گی جو ملک کے تاریخی سکھ ورثے کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم ہے۔اہم منصوبوں میں پشاور کا گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ شامل ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں تعمیر ہوا اور گہری تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
ای ٹی پی بی نے اس مقام کی بحالی اور مرمت کے لئے ایک معتبر کنسلٹنسی فرم کی خدمات حاصل کی ہیں جو مرمت و بحالی کے ڈیزائن اور منصوبہ بندی کی نگرانی کرے گی۔ منصوبہ اس وقت ٹینڈر کی منظوری کے مرحلے میں ہے اور محکمہ جاتی کلیئرنس کمیٹی کی منظوری کے فوراً بعد کام شروع ہونے کی توقع ہے۔اس کے علاوہ گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ اور پشاور میں واقع گوردوارہ بھائی بیبا سنگھ میں سکیورٹی اقدامات کو بھی مضبوط بنایا گیا ہے۔
دونوں مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں اور 24گھنٹے سکیورٹی عملہ تعینات کیا گیا ہے تاکہ ان مقدس مقامات کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔دستاویز کے مطابق یاتریوں کی بہتر رسائی کے لئے ای ٹی پی بی ان دونوں گوردواروں کے درمیان شٹل سروس شروع کرنے پر بھی غور کر رہا ہے بشرطیکہ اس کی مناسب طلب موجود ہو۔ دونوں مقامات کے درمیان فاصلہ تقریباً 2.6 کلومیٹر ہے جو مقامی ٹرانسپورٹ کے ذریعے باآسانی طے کیا جا سکتا ہے۔
سکھ یاتریوں یا پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کی جانب سے کسی باضابطہ درخواست کی صورت میں شٹل سروس کی فراہمی پر غور کیا جائے گا۔ایک اور اقدام کے طور پر ڈسکہ، سیالکوٹ میں واقع گوردوارہ ننک سر کی بھی وسیع پیمانے پر مرمت و بحالی کی جائے گی۔ یہ گوردوارہ اس وقت ایک غیر فعال زیارت گاہ ہے تاہم اس کے تاریخی ڈھانچے کو مزید بوسیدہ ہونے سے بچانے کے لئے اس کی بحالی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ای ٹی پی بی کی ٹیکنیکل برانچ ابتدائی کام، بشمول عارضی ساختی معاونت، پہلے ہی مکمل کر چکی ہے۔یہ بحالی منصوبے پاکستان میں سکھ برادری کے امیر ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لئے ای ٹی پی بی کے عزم کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے حکومت اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ یہ تاریخی مقامات آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ رہیں جبکہ ملک میں بین المذاہب مکالمے اور تمام مذہبی برادریوں کے لئے احترام کو بھی فروغ ملے۔