دیر لوئیر سیاست کے نشیب و فراز

کالم نگار: حبیب الرحیم ایڈوکیٹ

Spread the love

سال 1969میں پاکستان میں انضمام اور سال 1970 میں با قاعدہ ضلع بنے کے بعد، دیر کی سیاست میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ دیر کی نمائندگی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس اہم سیاسی شخصیت نے کی جنہوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے کلیدی عہدوں پر رہنے کی وجہ سے قومی لیڈروں کا درجہ حاصل کیا ہے۔ سابقہ دیر ریاست اب کے دو اضلاع دیر لوئر اور دیر اپر پر مشتمل ایک ضلع تھی جو کہ قومی اسمبلی کا ایک حلقہ تھا، نمائندگی قومی اسمبلی کا ایک رکن کرتا تھا اور 1996 میں دیر کی تقسیم کے بعد اسی حلقے کو مذید کچھ عرصہ کے لیے قومی اسمبلی کے واحد حلقے کے طور پر برقرار رکھا گیا جوکہ پہلے بار پانچویں اسمبلی میں دیر سے جماعت اسلامی پاکستان کا امیدوار صاحبزادہ صفی اللہ منتخب ہوئے۔بعدہ دوبارہ بھی اپ منتخب ہوتے رہے اوران کے بعد جناب صاحبزاد فتح اللہ، حاجی عنایت خان (مسلم لیگ نواز)، نجم الدین خان اور احمد حسن پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبرز منتخب ہوتے رہے۔ جمعیت اسلامی پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی ان دنوں دیر میں بڑی مقبول جماعتیں تھیں۔ بعد ازاں عوامی نیشنل پارٹی بھی فرنٹ لائن میں رہی تاہم جماعت اسلامی سب سے زیادہ مقبول پارٹی رہی ۔ اس لیے دیر کے پہلے ممبر قومی اسمبلی جماعت اسلامی کے صاحبزادہ صفی اللہ تھے جو دیر کی سیاست کی تاریخ میں ایک جانی پہچانی سیاسی شخصیت تھے۔ وہ 1970کے انتخابات میں NW-18 دیر سے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اور یہ سلسلہ سال 2018 تک بر قرار رہا اور جماعت اسلامی کو دیر کی پارٹی کے نام سے بھی یاد کیا جانے لگا۔ ہر جگہ اپنی اثر و رسوخ کھونے کے بعد بھی جماعت اسلامی دیر میں راج کرتی تھی ۔ دیر کو سال 1996 مین دو اضلاع دیر لوئر اور دیر اپر میں تقسیم کرنے کے بعد مذہبی جماعتوں نے اپنی گرفت برقرار رکھی کیونکہ تعلیم کا تناسب اور سیاسی شعور حوصلہ افزا نہ تھی اور لوگ مذہب کے نام پر ووٹ دینے پرقائل تھے۔ 2002 اور 2003 کے عام انتخابات میں دیر کے عوام نے متحدہ مجلس عمل کے فلیٹ فارم سے مولانا احمد غفور غواث کو قومی اسمبلی میں اپنا ممبر منتخب کیا۔ 2008 کے عام انتخابات میں جمعیت اسلامی کی جانب سے انتخابی بائیکاٹ کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار ملک عظمت ایک نوجوان سیاست دان قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2013 میں ایک بار پھر دیر لوئیر کی لوگوں نے جمعیت اسلامی پاکستان پر اپنا اعتماد کیا اور جناب صاحبزاد محمد یعقوب کو قومی اسمبلی میں اپنا نمائندہ منتخب کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ دیر لوئر جمعیت اسلامی پاکستان کے لیے بہترین سیاسی میدان ہے۔ اصل میں ایک بار پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی نشست حاصل کی تھی لیکن جماعت اسلامی کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے۔ 2018 میں جب دیرلوئیر کو آبادی میں اضافے کے باعث دو حلقوں میں تقسیم کیا گیا تو اسے قومی اسمبلی کی ایک اور نشست دی گئی۔ ۔ اس بار 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت نے ہر چیز کو تبدیل کر دیا اور عوام میں اپنا ممبر پارلیمنٹ منتخب کرنے کے رجحان میں بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ اس وقت عوام کا رجحان بھی پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کی طرف موڑگیا تھا، تمام سیاسی جماعتوں کو پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں محمد بشیر خان اور محبوب شاہ کی کامیاب نے سب کچھ تبدیل کر ڈالا اور سال 2024 میں دوبارہ دونوں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوران معہ صوبائی اسمبلی امیدواران منتخب ہوئے۔دیر لوئر کی اہم سیاسی شخصیت امیر جمعیت اسلامی پاکستان سراج الحق کو فتح سے دور رکھا گیا۔ اگرچہ وہ امیر جمعیت اسلامی پاکستان بننے کے بعد مقبول قومی رہنما رہے۔ انہیں دو بار اس سے سیاسی فہم فراس میں بہت کم اور سیاسی مقبولیت میں بھی بہت کم ادمی نے ہرا کر ان کی سیاسی کرئیر داؤ پر لگائی۔ یہاں تک کہ ان کے حریف شدید تنقید کے باوجود کہ مذکور دیر کے مسائل کو وفاقی سطح پر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ جبکہ محبوب شاہ اپنے حلقے کی نمائندگی کے لیے قومی زبان میں بات بھی نہیں کر سکتے۔ پچھلی بار جب پاکستان تحریک انصاف حکومت میں تھی تو ان نمائندوں کا کردار اتنا اہم نہیں تھا لیکن موجودہ صورت میں پاکستان تحریک انصاف کو اپوزیشن میں ہونے کیساتھ پارٹی کو شدید چیلنجزز کا سامنا بھی ہے، پارٹی کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے حلقوں کے مسائل کے لےاواز بلند کرنے کا دشوار مر حلہ بھی ان کے استقبال میں ہے۔ دیر لوئر پاکستان کا سب سے دور افتادہ علاقہ ہے جہاں ہر شعبے میں ترقی وقت کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی کی ممبر کا کردار اس میں بہت اہم ہوتا ہے تاہم ماضی کے تجربے کو سامنے رکھ کر ان دونوں سے یہ توقع رکھنا دانشمندی نہیں ہوگئ۔ گو کہ مستقبل میں دیر لوئر کی نمائندگی کرنے کے لیے کسی نہ کسی قابل سیاست دان کو موقع ضرور دیا گیا ہےلیکن یہ ان کے یہ زمداری ان کے حلقے تک محدود نہیں رہا کیونکہ وہ پورے صوبے کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ ایک سینیٹر پورے صوبے کی نمائندگی کرتا ہے اس کی نمائندگی کسی ایک حلقے تک محدود نہیں ہوتی۔ دیر لوئر کے مقبول سیاست دان سینیٹر احمد حسن پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں ممبر قومی اسمبلی رہنے کیساتھ ساتھ اپ صوبائی ڈپٹی سپیکر اور صوبائی منسٹر کیساتھ دیر لوئر کے سابق ضلع ناظم رہنے کیوجہ سے ان کے قومی سیاست میں قابل ستائش خدمات ہے، سینیٹر گل نصیب خان سابق نائب امیر جمعیت علماء اسلام جوکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صوبائی امیر بھی رہے۔ دیر کی سیاست میں بھی اہم کردار کا مالک رہا ، سینیٹر زاہد خان عوامی نیشنل پارٹی میں اہم عہدوں پر براجماء رہاہے اور آخر میں پاکستان کی سیاست میں کلیدی کردار رکھنے والی شخصیت اور قومی رہنما ء سینیٹر سراج الحق جو کہ دوبارہ صوبائی وزیر رہنے کیساتھ ساتھ سینیٹر بھی رہے اپ وہ کلیدی سیاست دان ہے جو دیر کی سیاست کا اہم ستون مانے جاتے ہیں۔اسطرح جناب نجم الدین اپنے پارٹی کے اہم عہدوں پر رہنے کے علاوہ وفاقی وزیر بھی رہا ہے۔ ان کی صلاحیتوں اور سیاسی ذہانت کا ادراک اس بات سے کی جاتی ہے کہ یہ لوگ جب نمائندگی کررہے تھے تو ان کے سوچ اور فکر ملکی سیاست کے لیے درکار ہوتا تھا اس لے تویہ دیر کی سیاست کے حقیقی فخر ہیں۔ اسطر ح صوبائی سطح پر بھی ایسے سیاستدان ہیں جو ضلع کی نمائندگی کرنے اور صوبے کی سیاست کے بہترین مفاد کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے اہل ہے۔لیکن پاکستان تحریک انصاف کے مقبولیت کے بعد قومی سیاست میں ان کے کردار کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا اور اس وقت انہیں دیر کی نمائندگی کے دوڑ سے دور رکھا گیا۔ بدقسمتی سے ہم دیر لوئر کے باسیوں ایک بار پھر ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جنہوں نے کبھی صوبائی سطح پر بھی وزیر بننے کے اہلیت نہیں رکھتے۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ہم نے ایک بار پھر بیک بنچرز منتخب کی ہے۔ جو کہ نہ تو دیر کے حقوق کے لیے اواز اٹھانے کے اہل ہیں اور نہ ہی اپنے پارٹی کو مشکل حالات سے نکالنے میں زرہ برابر کرادار ادکرسکتے ہیں۔ ہم نےایک بار پھر اپنے ضلع کا وقار، عزت ، ترقی اور سب کچھ عمران خان پر قربان کردیا۔ ہم نے خان صاحب کے خاطر اپنے بچوں کے مستقبل کا بھی جو سودا کیا ہے اس پر ہم اپنے بچوں سے شرمندہ ہے۔ ہمارے دیر کی سرزمیں پاس سیاسی بصارت کی لحاظ سے بھی زر خیز ہے مگر کیا کرے شومی تقدیر کا ۔
کالم نگار: حبیب الرحیم ایڈوکیٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button