جاسوسی افسانہ مشین

ازقلم: نورین خان

Spread the love

صبح کے دس بج چکے ہیں اور نواب سلامت علی خان صاحب اب تک بازار سے دودھ نہیں لائے۔۔توبہ ہے کام چوری کی۔۔
کیا بڑبڑا رہی ہو شریفین بوا؟
کچھ نہیں مراد صاحب بس یہ سلامت نے بہت تنگ کر رکھا ہے وقت پر کام نہیں کرتا۔کام چور کہی کا۔
اسی دوران سلامت گھر کے اندر آتا ہے اور تیزی سے کیچن میں داخل ہوتا ہے یہ لو دودھ شریفین بوا۔
تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا کم بخت کہی کے کبھی تم سے سیدھا کام نہیں ہوگا۔
دیکھئے مراد صاحب میں اب اس گھر میں نہیں رہونگا آپ شریفین بوا کو کام سے نکال دیں اور اسکو دی جانی والی تنخواہوں کو میرے کھاتے میں ڈال دیجئے۔
دیکھا مراد صاحب میں نا کہتی تھی کہ یہ کم بخت سلامت میرا جانی دشمن ہے۔میں کیوں جاوں اس گھر سے؟ آخر یہ میرا گھر ہے بڑی بیگم کیساتھ میں جہیز میں آئی تھی اور مراد تو میرے ہاتھوں میں پیدا ہوا ہے۔یہ میرا گھر ہے۔
تو کیا ہوا شریفین بوا مراد صاحب بچپن میں مجھے بھی فٹ پاتھ سے اٹھا کر لے آئے تھے اور دیکھو آج میں نے ہسٹری میں ایم۔اے کر لیا ہے۔میں پڑھا لکھا ہوں کام کا بندہ ہوں سمجھی بوا۔۔
فون کی گھنٹی بجنی لگی سلامت فون اٹھاتا ہے۔
ہیلو نواب سلامت علی خان ایم۔اے ہسٹری فرام یونیورسٹی آف پشاور۔۔کون بول رہا ہے۔
دوسری طرف سے کیپٹن مراد سے بات کرائے چیف صاحب لائن پر موجود ہے۔
مراد صاحب چیف کا فون ہے۔۔
ہیلو کیپٹن مراد از سپکینگ۔۔۔
مراد کیسے ہو؟
شکر ہے رب کا جی سر فرمائیے۔
مراد: ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان یعنی کافرستان کو کل اسرائیل کی جانب سے ایک خفیہ جاسوسی مشین بھیجی گئی ہے۔جس کو ہمارے ملک کے بارڈر کے پاس نصب کیا جائے گا اور پھر اس سے ہمارے ملک کے خاص جگہوں کی جاسوسی اور نگرانی کی جائے گی تاکہ ہمارے نئے نئے ایجادات کا وہ پتہ لگا سکیں۔اور اس مشین کے موجد یہودی سائنس دان آورام آج ہندوستان شام تک پہنچ جائے گے اور ایک ہفتے بعد وہ مشین کو فٹ کر دینگے اسکے بعد ہم کچھ نا کر سکیں گے۔اس لئے ہمیں اس خطرے سے نمٹنے کے لئے جو کچھ کرنا پڑے وہ کرو اور آج سے اس مشن پر لگ جاو۔یاد رہے کہ ہر صورت اس مشین کو تباہ کرنا ہوگا۔اور اسکو وہی موجد یہودی سائنس دان ہی چلا سکتا ہے۔اوور اینڈ آل۔۔۔
مراد فون رکھ دیتا ہے۔شریفین بوا چائے لے آتی ہے۔
مراد صاحب یہ آپ ہر وقت چائے پیتے رہتے ہیں آپکا گورا رنگ کالا ہو جائے گا۔
کچھ نہیں ہوتا بوا آپ فکر نا کریں مجھے چائے کی لت عباس نے لگائی ہے۔
ہاں جانتی ہوں بیٹا یہ سارے کام نصیبن کملوہئ کے ہے۔کھانا پکانا تو آتا نہیں سارا دن عباس بیٹے کو چائے پلاتی ہے کم بخت ماری۔
اچھا بوا میں کام سے جارہا ہوں شائد ہفتہ لگ جائے یا دس دن آپ اور سلامت آرام سے رہیں۔تاکہ میں مطمئن رہوں۔
ارے مراد بیٹا میں کہاں لڑتی ہوں؟ یہ تو نواب سلامت میرا دل جلاتا ہے تو پھر کچھ بول دیتی ہوں۔
سلامت گھر کا خیال رکھنا اچھا خداحافظ کوئی پوچھے تو کہنا نہیں جانتا۔
مراد اپنے گھر روشن منزل سے نکل جاتا ہے اور ٹیکسی میں بیٹھ جاتا ہے زیرک منزل حیات آباد روڈ کیطرف چلو۔۔
فلیٹ کا دروازہ نصین بوا نے کھولا خوشامدید مراد بیٹے آئیے عباس صاحب کمرے میں موجود ہیں تشریف لائیں۔
شکریہ بوا ۔۔۔۔ دوسری جانب ہاتھ میں اخبار لئے کیپٹن عباس مراد سے گلے ملتے ہیں۔بہت دنوں بعد باس ؟ آخر میری یاد آ ہی گئی۔
کیسی یاد عباس چیف کا فون آیا تھا یار یہ پڑوسی ملک والے ہمیں چین سے جینے نہیں دینگے۔
سامنے رکھے ہوئے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔تو مراد نے ہاتھ بڑھا کر ریسور اٹھا لیا۔
ہیلو کیپٹن مراد از سپکینگ۔۔۔
کیپٹن مہدی لائن پر ہے۔دوسری جانب سے کہا گیا۔
مراد میں زیرک منزل آرہا ہوں اور میں نے مس نورین کو بھی اطلاع دے دی ہے کیونکہ ابدالی سر کا آرڈر تھا ہم سب پہنچ رہے ہیں۔اوور اینڈ آل۔
مراد فون سن کر صوفے پر بیٹھ جاتا ہے۔
دس منٹ بعد سب عباس کے گھر زیرک منزل پر موجود تھے۔مراد نے کیپٹن مہدی سے کہا کہ آج رات ہی ہمیں مشن پر نکلنا ہوگا اور میرے ساتھ کیپٹن مہدی، اور انسپکٹر نورین ہوگی۔
عباس یہاں سارے کام سنبھالے گا اور میجر علی ہم سے رابطے میں رہے گا۔انسپکٹر شاھد اور ندیم یہاں سے رابطے کا کام کرینگے اور ڈیجیٹل مدد کرینگے خطرے کی صورت میں۔اپنے ساتھ ضرورت کا سامان رکھیں اور میک اپ کر لیں۔آج ہی ہم پڑوسی ملک کافرستان یعنی ہندوستان بارڈر پار کرینگے۔
مگر کس طرح مراد؟ کیپٹن مہدی بولا
اسکی فکر مت کرو ہم کشمیر کی طرف سے داخل ہونگے لہذا سب لوگ کشمیری پنڈت کا روپ دھار لیں کیونکہ ہم پنڈت کے روپ میں جائنگے۔
او اچھا پنڈت نہرو بھی کشمیری پنڈت تھا اور سنا ہے یہ قوم بہت ہی جھوٹی ہے اور جھوٹ بولتی ہے۔
چلو سب میک اپ کر لیں۔
مہدی نے سارا سامان گاڑی میں رکھا اور نورین نے اپنا بیگ آگے کے سیٹ میں رکھا۔۔
او نو مس نورین یعنی تم مراد کیساتھ آگے نہیں بیٹھنا چاہتی۔ویری سیڈ۔
جسٹ شٹ اپ۔۔۔ نورین نے غصے سے جواب دیا اور کیپٹن مہدی مسکرانے لگا۔۔یار تم لوگ ابھی تو مت لڑو۔۔پیچھے سیٹ پے مہدی نے اچھا خاصا سامان لاد دیا اور خود مشکل سے ایڈجسٹ کرکے نورین کیساتھ بیٹھ گیا۔
یار مراد گاڑی آہستہ چلاو کیا ہمیں اوپر پہنچانے کا پروگرام ہے؟
نہیں میرے دوست بس وقت پے پہنچنا ہے۔ویسے مس نورین آپ بالکل روینہ ٹنڈن لگ رہی ہے اس حلیے میں۔۔
مہدی نے کہا یعنی کافرستان ملک میں نورین کا نام روینہ ہو گا اور میرا نام وجے کمار ہوگا۔اور مراد نہرو پنڈت فرام جموں کشمیر ہم سب تجارت کی غرض سے جاریے ہیں اور ہمارا کام وہاں دہلی،بنارس،ممبی سے سامان خریدنا ہے۔
ایک بات اور جیسے ہی ہم بارڈر کراس کرینگے تو فورا معلوم کرینگے کہ اسرائیل نے وہ مشین کافرستان کے کس علاقے میں پہنچائی ہے۔پہلے پتہ لگائے گے۔اسکے بعد اپنا اقدام کرینگے اور تدبیر۔
مگر مراد اگر ہم ہندوستان میں داخل ہوئے تو وہاں کے خفیہ ایجنسی را کو پتہ لگ جائے گا۔
تم اسکی فکر مت کرو جب را کے کتوں کو پتہ چلے گا تو ہم اپنا کام کر چکے ہونگے اور اندر داخل ہو چکے ہونگے انکو بھی دیکھ لینگے۔
کشمیر کی وادیوں میں دو کلومیٹر دور ایک ویران جنگل تھا کیپٹن مراد اور مہدی اور انسپکٹر نورین میک اپ میں مکمل ہندو پنڈت لگ رہے تھے اور وہاں پیدل چل رہے تھے اچانک انہیں سڑک نظر آئی۔انکو دیکھ کر ایک ٹرک رکی اور ایک سکھ جو شراب کے نشے میں دھت تھا پوچھنے لگا کیوں پنڈت صاحب کہاں جانا ہے؟ میں پہنچا دونگا بس مجھے گاندھی چائیے گاندھی۔۔
کیا ہوا روینہ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہوں سردار جی کا مطبل ہے کہ اسے روکڑا چائے روکڑا۔۔
چلو چلو جلدی کرو ٹرک پے چڑھ جاو وجے کمار اور روینہ جی میں سردار جی کیساتھ آگے بیٹھوں گا تاکہ گپ شپ لگا سکوں۔
سرادر جی یہ لیں پورے پانچ ہزار نئے نئے کرارے نوٹ بس ہمیں جلد ہندوستان پہنچا دو ہمیں وہاں تجارت کا مال خریدنا پے۔
کمرے میں ایک مونچھوں والا موٹا تازہ آدمی ماتھے پے سرخ تلک لگائے ہوئے میز پر پڑے ہوئے ٹرانسمیٹر کا بٹن آن کرتا ہے۔
فریکوئنسی سیٹ کرنے کے بعد۔۔
ہیلو ہیلو۔۔۔۔ سیکرٹری راشٹر پتی صدر مملکت مدھو کرمو سے بات کرائے۔۔۔
دوسری جانب سے نسوانی آواز۔۔۔ ہولڈ کیجئے۔۔
جی ہیلو صدر مملکت ( راشٹر پتی) مدھو کرمو از سپکینگ۔۔۔
ہیلو میڈیم۔۔۔۔ایجنٹ فائیو از آن لائن۔۔ میڈیم جی ہمیں ہماری خفیہ جاسوسوں سے اطلاع ملی ہے کہ کشمیر سائیڈ سے تین لوگ ہندوستان میں بذریعہ ٹرک داخل ہوئے ہیں۔ہمیں شبہ ہے کہ یہ پڑوسی ملک شانستان( پاکستان ) کے خفیہ ایجنسی کے خاص ایجنٹ ہیں اور انکا خاص بندہ کیپٹن مراد بھی اس میں شامل ہیں۔اوور اینڈ آل۔۔۔
او نو۔۔۔ راشٹر پتی مدھو کرمو غصے سے اٹھ جاتی ہے اور بیل بجاتی ہے۔
جی میڈیم ۔۔ سکیورٹی پرسن کمرے میں آتا ہے۔
وجے فورا ہماری خفیہ ایجنسی کے سربراہ چیف رائے سنہا کو فورا بلاو کہ صدر مملکت آف کافرستان یعنی ہندوستان نے آپکو اپنے آفس میں فورا بلایا ہے۔جلدی۔
اوکے میڈیم ابھی جاتا ہوں۔
دس منٹ بعد چیف آف سیکرٹ انٹیلی جنس ایجنسی کافرستان رائے سنہا صدر مملکت کے آفس میں موجود تھے۔جی میڈیم آپ نے مجھے ابھی یاد کیا خیریت؟
ہاں رائے سنہا جی میں بہت پریشان ہوں ابھی مجھے اطلاع ملی ہے کہ ہمارے دیش میں پڑوسی ملک شانستان کے خفیہ ایجنسی کے بندے گھس آئے ہیں اور ان میں ایک بندہ کیپٹن مراد بھی ہے۔
کیا۔۔۔ یہ سن کر چیف رائے سنہا کھڑے ہوگئے اور اسکی مٹھیاں سختی سے بند ہوگئ۔۔میڈیم یہ تو بڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔
یہ نمبر ون کے کارندے ہونگے اور آپکو نہیں پتہ یہ مراد جو کیپٹن مراد ہے دنیا بھر میں بہت مشہور اور خطرناک جاسوس ہے۔بظاہر بےوقوف اور سیدھا سادہ لگتا ہے مگر مراد سے دنیا بھر کی ایجنسیاں پریشان ہے۔وہ بہت خطرناک اور پھرتیلا شاطر بندہ ہے۔یہ نمبرون کا خاص بندہ ہے۔اگر وہ آیا ہے پھر ہمیں فورا آپریشن کرنا پڑے گا۔
راشٹر پتی جی آپ کیوں ٹہل رہی ہے؟
رائے سنہا صاحب کہی پڑوسی ملک شناستان کو ہمارے اور اسرائیل کے منصوبے اس خفیہ مشین کا تو پتہ نہیں چل گیا۔ابھی اسرائیل سے سائنس دان آورام بھی نہیں پہنچے۔۔
نہیں نہیں میڈیم اس کے بارے صرف میں آپ اور اسرائیل کی ایجنسی جانتی ہے باقی کسی کو نہیں پتہ آپ بےفکر رہے یہ نمبرون والے کسی اور چکر میں آئے ہونگے۔
رائے سنہا جی میں نے ایک خیال ظاہر کیا ہے،ہو سکتا ہے ایسا نا ہو؟
بہرحال ہمیں ہر حال میں چوکنا رہنا چاہیے۔میں تمھیں سارے اختیارات دیتی ہوں چیف جاو اور آپریشن شروع کرو۔
اوکے میڈیم چیف رائے سنہا آفس سے چلے جاتے ہیں۔رائے سنہا کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔
رائے سنہا اس مشین کی اہمیت اچھی طرح جانتے تھے اگر وہ نصب ہو جائے تو اس طرح ہم ایٹمی دیش شناستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینگے۔
مراد کو کسی صورت بچ کر نہیں جانا چائیے غصے سے میز پر مکھا مارتے ہوئے۔
آفس سے کال ملاتے ہیں ۔
ہیلو ہیلو میجر کالی داس ۔۔۔۔ چیف آف سیکرٹ انٹیلی جنس ایجنسی کافرستان از سپکینگ۔۔۔
جی سر آرڈر کریں۔۔۔
میجر کالی داس میری بات غور سے سنو اور عمل کرو ہمارے دیش کافرستان میں نمبرون کے جاسوس اہلکار گھس آئے ہیں غالبا انکی تعداد تین ہیں دو مرد اور ایک مہیلا ہے۔
مجھے اطلاع ملی ہے کہ ان میں کیپٹن مراد بھی ہے۔مجھے ہر صورت مراد زندہ چائیے کیونکہ وہ پڑوسی ملک کا اہم بندہ ہے۔اوور اینڈ آل ابھی سے مشن پے لگ جاو۔۔
یس سر۔۔۔ میجر کالی داس کے ہونٹوں پر ایک مکروہ مسکراہٹ پھیل گئی اب آیا مراد جال میں۔
میں تمھاری ہڈیاں پیس دونگا سالے۔۔ تمھاری بوٹیاں کتوں کو کھلا دونگا۔۔۔
میجر کالی داس شروع سے مسلمانوں کے خلاف تھا اور برملا اسکا اظہار بھی کرتا تھا اسی لئے ہر افسر کو اچھا لگتا تھا۔
ٹرک اپنے رفتار سے سڑک پر دوڑ رہی تھی اچانک سامنے ناکہ بندی نظر آئی۔ارے یہ کیا وائے گرو یہاں تو پہلے ہندوستانی فوجی نا تھے؟ سردار جی ٹرک روک کر اتر جاتے ہیں۔
فوجی افسر سردار سے رسمی معلومات حاصل کرکے مراد کے پاس آتے ہیں جو کہ کشمیری پنڈت کے حلیے میں ہوتے ہیں۔
اجی سرکار یہ نہرو پنڈت ہے اپنے جموں کے تاجر ہے۔
کاغذات دیکھاو فوجی کرخت لہجے میں بولا۔
کاغذات مکمل اور صیح تھے۔پیچھے کون ہیں؟
اجی وہ انکے نوکر ہیں سردار جی پھر سے بول پڑے۔
اچھا ٹھیک ہے جاو مگر احتیاط کرنا کسی انجان بندے کو لفٹ مت دینا ہمیں اطلاع ملی ہے کہ پڑوسی ملک شناستان سے جاسوس اپنے دیش میں گھس آئے ہیں۔
اجی سرکار آئے ہیں تو آنے دو ہمارا کیا بگاڑ لینگے۔سردار جی آستین اوپر کرکے واپس ٹرک میں بیٹھ گئے اور سفر پر روانہ ہو گئے۔
روینہ جی لگتا ہے کہ ہندوستانی کافرستانی ایجنسی را کو پتہ لگ چکا ہے کہ ہم ملک میں داخل ہو چکے ہیں۔ورنہ یہ بےوقت کی ناکہ بندی اور تفتیش نا ہوتی۔
ہاں تم ٹھیک کہتے ہو مہدی لیکن آگے کیا کرنا ہے؟
پہلے دہلی پہنچنے دو پھر دیکھتے ہیں۔
لو جی نہرو پنڈت صاحب دہلی پہنچ گئے اب آپ اتر جائیں سب میں جاتا ہوں اب مجھے گڈی اڈے پہنچانا ہے۔۔ رب رکھا۔۔۔۔
دھنے واد سردار جی۔۔۔ مراد نے شکریہ ادا کیا اور تینوں خیریت سے اتر گئے۔لگتا ہے یہ کوئی غیر آباد جگہ ہے آگے دہلی شہر شروع ہوگا۔خیر ہمارا کام شہر میں نہیں ہمارا کام معلومات پر ہے۔چلو چلتے ہیں۔مراد صاحب کیوں نا بس اڈے چلے جائے؟
ارے نہیں مہدی بس اڈے, ریلوے سٹیشن وہاں را کے ایجنٹ سادھے لباس میں ادھر ادھر گھوم رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں انجان جان کر پیچھا کرینگے اور میں یہ رسک فالحال نہیں لے سکتا, کیونکہ اس وقت ہمارا مقابلہ دو دو سیکرٹ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ہیں۔ایک وہ سالا یہودی آوارم اور ایک یہ گائے کا موتر پینے والے مشرک۔۔
دوسری بات یہ کہ فلاحال ہمیں اس اڈے کی معلومات نہیں ملی، نا ہی سیکورٹی انتظامات کا پتہ چلا ہے۔تاکہ اسکے مطابق اقدامات کئے جائے۔ابھی تو میں صرف رب کے سہارے ہی شروع کرنے والا ہوں، بس یہ خیال رہے کہ ہم نے اکٹھا سفر آگے نہیں کرنا۔مس نورین آپ کیپٹن مہدی کیساتھ الگ رستے پر جاو، جیسے ہی مجھے اطلاع ملی گی میں آپ لوگوں سے رابطہ کر لونگا۔
ویسے میں جانتا ہوں مس نورین آپ مجھے بہت یاد کریگی مگر کیا کریں مجبوری ہے۔
جسٹ شٹ اپ اوکے میں تمھاری شکایت چیف سے ضرور کرونگی۔
ضرور کرنا میری جان ۔۔۔ اچھا یہاں سے ہمارے راستے الگ ۔۔۔
مگر تم کہاں جارہے ہو مراد؟ ہمیں کچھ تو بتاو۔۔
میں نے بتایا نا بعد میں رابطہ کرونگا۔اوکے خداحافظ اور تینوں الگ الگ راستوں پر چل پڑے۔
تھوڑی دور جاکر مراد کو ایک دیہی آبادی مل گئی اور ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان ایک ویران کھنڈر بھی نظر آیا۔۔۔
یہ علاقہ شناستان کے بارڈر کے قریب تھا۔اس لئے اچھی خاصی آبادی والا علاقہ تھا۔
سامنے مندر کی گھنٹیاں بج رہی تھی۔مراد وہی مندر کے اندر گیا اور وہاں کا پجاری موتیوں کو پھولوں کی مالا پہنا رہا تھا۔
کیا بات ہے بالک؟ کیا درشن کے لئے آئے ہو؟
ارے نہیں پجاری جی مجھے تھوڑی معلومات چائیے میری یہاں ماسی کا گھر ہے مجھے میری آئی ( ماں ) نے بتایا تھا اب وہ تو سورگ واسی ہو گئی ہے اسکی ایک امانت ماسی کو دینی ہے آپ مجھے اس علاقے کی تھوڑی جانکاری دے دیں تو بڑی کرپا ہوگی۔
کیوں نہیں کیوں نہیں بالک تشریف رکھو۔۔ارے او موہن رام کی مورتی کے سامنے جو مٹھائی پڑی ہے وہ لے آو مہمان آئے ہیں۔
مراد نے دل میں سوچا اب اس کم بخت مورتی کے لڈو بھی کھانے یونگے۔۔ توبہ توبہ
ارے نہیں پجاری جی میں بوجھن کرکے آیا ہوں اسکی کوئی ضرورت نہیں۔
آپ مجھے بتائے پورا علاقہ آباد ہیں اور یہ پڑوسی ملک کے بارڈر کے قریب یہ غیر آباد عمارت کیوں ہے؟ وہاں تو کوئی بھی نہیں۔
بٹوا وہ جگہ تو برسوں سے خالی پڑی پے سنا ہے وہاں بھوت پریت کا سایہ ہے اور پورن ماسی کی رات وہاں چڑیل آتی ہے۔اور جو اس عمارت کے آس پاس جاتا ہے وہ لاپتہ ہو جاتا ہے اور پھر اسکی لاش ہی ملتی ہے۔
اچھا تو یہ بات ہے کاکا،اچھا اب میں چلتا ہوں میری ماسی کا گھر بھی اسی جانب ہے۔
ارے بیٹوا اس کھنڈر کے قریب مت جانا اور ہاں اپنے تحفظ کے لئے رام کے مندر کا یہ تریشول لے جانا۔واپسی پر مجھے واپس دے دینا۔
مجھے اس تریشول کی ضرورت نہیں کاکا۔میرے اپنے بازو کافی ہے چلو ٹھیک ہے بیٹوا۔اچھا اب میں اپنا جاپ شروع کرونگا۔۔۔
مراد یہ سب سن کر حیران ہوا کہ اس صدی میں بھی یہ لوگ کس قدر افواہوں پر یقین کرتے ہیں۔خیر وہ روانہ ہوا اور اسی کچے سڑک پر چلتا رہا اسے بھوک بھی بہت زیادہ لگ رہی تھی مگر جان بوجھ کر اس نے مندر کا پرشاد نہیں کھایا۔
تھوڑی دور پیدل چلنے کے بعد اسے وہ کھنڈر نظر آ گیا مراد وہاں جھاڑیوں میں چھپ کے بیٹھ گیا اور جائزہ لینے لگا۔اسے یاد آیا کہ اسکی جیب میں ایک برگر پڑا ہوا ہے جو اس نے سردار جی کیساتھ ایک ڈھابے سے خریدا تھا۔برگر جیب سے نکالا اور مزے مزے سے کھانے لگا۔ایک گھنٹہ گزرا دوسرا گھنٹہ گزرا مراد وہی پر موجود تھا جیسے ہی شام کا اندھیرا پھیلا اچانک اسے وہاں خشک پتوں پر چلنے کی آواز آئی دیکھا کہ اندھیرے میں دو قوی ہیکل بندے اسلحے سمیت اسی کھنڈر سے نکلے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے چلو یار اپنے لئے پان اور بیڑی خرید لیں اس سے پہلے کہ سپرنٹنڈنٹ آ جائے۔
مراد سوچنے لگا کہ یہاں کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔مراد وہاں سے خاموشی سے نکلا اور قریب ایک دیہاتی کے دوکان سے فون ملانے لگا کیونکہ اس نے پہلے مہدی کو خبردار کر دیا تھا۔
ہیلو ہیلو مسٹر ایکس۔ میں نہرو پنڈت بول رہا ہوں کیا مسیج ہے دلہا شادی میں پہنچ گیا ہے یا نہیں؟
دوسری جانب سے جواب ملتا ہے۔
جناب دولہا کل رات شادی میں پہنچ چکا ہے اور ایک ویران کھنڈر جو گنجان آباد علاقے میں ہے وہاں زیر زمین ایک لیبارٹری میں موجود ہیں وہاں کھانے کی دیک پکا رہا ہے۔جگہ بارڈر کے پاس ہے۔اوور اینڈ آل۔۔
یہ ہندوستان کافرستان ملک میں ہمارے جاسوس مسٹر ایکس تھے۔شکر ہے کچھ تو پتہ چلا یعنی میرا شک ٹھیک نکلا وہ کھنڈر ہی وہ اڈا ہے کیونکہ وہ شانستانی سرحد کے قریب ہے اور وہاں ان مشرکوں نے مشین نصب کرنی ہوگی۔
رات کا اندھیرا چھا چکا تھا مہدی اور نورین پیدل چل چل کر تھک چکے تھے۔وہ دونوں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے کہ انہیں فوجی جیپوں کی آوازیں سنائی دی لگتا ہے یہاں نفری آئی ہے یہ لوگ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں۔چلو اٹھو جلدی کرو یہاں سے بھاگو۔۔
اچانک ایک فوجی کی نظر درختوں پر پڑی کہ دو لوگ درختوں کی جھنڈ میں غائب ہو گئے۔
وہ فوجی چلانے لگا سر مجھے دو مشکوک لوگ نظر آئے ہیں سامنے بھاگ گئے ہیں مگر زیادہ دور نہیں گئے ہونگے۔
فوجی افسر نے اسے آرڈر دیا فورا ایک فوجی دستہ لو اور اسکا پیچھا کرو وہ دونوں مجھے زندہ چائیے جلدی۔اسکے بعد وہ فوجی فورا فون ملانے لگا۔۔
ہیلو ہیلو۔۔۔ سر میجر کالی داس سے بات کرائے۔۔۔ کیپٹن راہول از سپکینگ۔۔
ہاں بولو راہول کیا اپڈیٹ ہے؟
سر ہمیں دو مشکوک لوگ شناستانی سرحد کے قریب ملے ہیں ہم انہیں جلد پکڑ لینگے مجھے پکا یقین ہے کہ یہ دونوں نمبرون کے کارندے ہونگے۔کیونکہ جس مہارت اور چابک دستی سے ہمیں چکمہ دے کر غائب ہوئے ایسے کوئی ماہر سپاہی ہی کر سکتا ہے۔اوور۔
میجر کالی داس کے ہونٹوں پر پھر سے مکروہ مسکراہٹ آنی لگی اور وہ بہت خوش تھا کہ آخر کار اسکے ہاتھ شناستانی ایجنٹ ہاتھ لگ جائے گے اور اسکی ترقی ہو جائے گی۔
مہدی اور نورین اندھیرے میں آگے بڑھ رہے تھے کہ اسکے سامنے چار فوجی کھڑے ہو گئے ۔۔
خبردار اپنے ہاتھ اوپر کرو اور ہلنا مت ورنہ گولی چلا دونگا۔۔
مہدی نے ہاتھ اوپر کئے اور نیچے بیٹھنے کے انداز میں جھکا اور فورا اپنے جیب سے ریوالور نکال کر چاروں کے کھوپڑیوں کو اڑا دیا۔۔۔ اس چابک دستی سے کہ ان کو سنبھلنے کا موقع ہی نا مل سکا۔۔
کیپٹن راہول سر گولیوں کی آواز آئی ہے کیا کریں سر؟
مزید ایک فوجی دستہ بموں کیساتھ بیھج دو۔یس سر۔۔۔ دوسرا دستہ بھی چلا گیا۔
مہدی مہدی نورین دھیمی آواز میں بول رہی تھی دوسرا دستہ آریا ہے میں انکے قدموں کی آواز سن رہی ہوں۔۔۔
آنے دو ہندووں کو ۔۔۔ مہدی بےباک لہجے میں بولا۔
جیسے ہی ایک فوجی انکے تلاش میں وہاں آیا نورین نے اسکے سر پر کک ماری اور وہ بےھوش ہو کر گر گیا۔اسکے بیگ میں چار پانچ بمب بھی تھے۔
گڈ ورک مس نورین مہدی نے شاباش دی یہ اچھا ہوا کہ اس بیگ میں بمب موجود ہیں۔مجھے یہ بیگ دو اور تم میرے پیچھے پیچھے آو دھیان رکھنا۔مگر مہدی تم کیا کرنے جارہے ہو؟ بس تم میرے ساتھ آو۔۔
مہدی پیدل چل کر بیس جیپوں فوجی گاڑیوں کے پاس پہنچا،جن میں اسلحے سے لیس سپاہی موجود تھے۔مہدی نے چار پانچ گرنیڈ بمب ہاتھ میں پکڑے اور نعرہ لگایا یا حق۔۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے دشمن کے انیس فوجی جیپ سپاہیوں سمیت اڑ گئے۔۔
کیپٹن راہول اپنی جیپ کیساتھ موجود تھے وہ اس دھماکے کے لئے ذہنی طور پر تیار نا تھے۔کہ انکے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
وہ ڈر کے مارے اپنے فوجی جیپ سے اتر گیا اور پھر سے فون ملانے لگا۔۔
ہیلو ہیلو سر میجر کالی داس۔۔۔ سر بری خبر ہے نمبرون کے دو لوگوں نے ہماری انیس فوجی گاڑیاں اڑا دی ہے ابھی میں بھی شمشان گھاٹ میں ہوتا مگر میں آپ سے رابطے میں مصروف تھا اوور۔۔
میجر کالی داس کا چہرہ ایک دم بدل گیا اور کرخت لہجے میں بولا۔۔یو نانسس۔۔ یو ایڈیٹ۔۔ میں نے نہیں کہا تھا کہ یہ پڑوسی ملک شناستان کے خفیہ ایجنسی کے کارندے ہے اور یہ بہت خطرناک لوگ ہے تم کیا اسے گورے بی۔آئی،اے ایجنسی کیطرح احمق سمجھ رہے تھے؟ ہمارے درجن بھر سپاہی مارے گئے اب میں چیف کو کیا جواب دونگا؟ احمق،جنگلی،دو تین اور گالیاں بھی دے دی۔
میں مزید پانچ دستے بیھیج رہا ہوں مجھے ہر صورت میں وہ دونوں زندہ چائیے۔جیسے ہی پکڑے جائیں تو دونوں کو اسی ویران کھنڈر میں لے جانا کیونکہ سیکرٹ انٹیلی جنس ایجنسی کے چیف وہی پر موجود ہے یہاں ہیڈ کوارٹر مت لانا سمجھے۔۔اوور اینڈ آل۔۔۔اور فون بند کر دیا۔

یہ نئی مصیبت اب ان حرام حوروں کو کھنڈر پہنچانا پڑے گا اچھا ہوتا ان کاونٹر کا آرڈر مل جاتا۔
کیپٹن راہول اپنی جیپ کی جانب آرہا تھا کہ اچانک مہدی جلدی سے جیپ کے ڈرائیور کو دھکا مار کے زمین پے گرا دیا اور نورین تیزی سے جیپ میں بیٹھ گئی اور مہدی جیپ بھگانے لگا۔
او نو یہ نمبر ون کے کارندے میرا کورٹ مارشل کروا دینگے۔میں تم دونوں کو زندہ نہیں چھوڑونگا اور پیدل پاگلوں کیطرح جیپ کے پیچھے دوڑنے لگا۔
مہدی نے ایک کلومیٹر سفر کیا ہی تھا کہ اچانک چاروں طرف سے اسے فوجی گھیرے میں لے لیا گیا۔
جیپ رک گئی اور اور فوجیوں نے دونوں کو پکڑ لیا۔
ایک سپاہی بولا جاو کیپٹن راہول کو اطلاع دو کہ دونوں مجرم ہمارے کسٹڈی میں ہیں۔
کیپٹن راہول مٹی میں لیت پیت اور بری حالت میں آگئے اور غصے میں مہدی کو کہنے لگے کہ اچھا تم ہو پڑوسی ملک شناستان کے خفیہ ایجنسی کے جاسوس؟ بتاو کیا نام ہے تمھارا۔۔
میرا نام وجے کمار ہے۔اور یہ میری ساتھی روینہ شکلے ہے۔ہم جموں کشمیر کے پنڈت تاجر ہیں۔
بکواس بند کرو۔۔ جنگلی تم نے ہمارے انیس فوجی جیپ اڑا دئے تم کس قدر خطرناک ہو کیا میں نہیں جانتا؟ مجھے گدھا سمجھا ہوا پے کیا۔
نہیں اس سے زیادہ سمجھ رہا ہوں۔
اس لڑکی کے ہاتھ بھی باندھ دو۔۔اور دونوں کو ویران کھنڈر میں پہنچا دو۔جلدی۔
مراد نے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیا اور آس پاس دیکھا کہ کوئی اسکا پیچھا تو نہیں کر رہا۔جب مطمئن ہو گیا تو دوکاندار کو سو روپے دئیے اور وہاں سے واپس اس ویرانے کی جانب روانہ ہوا وہاں پہنچ کر ایک بار پھر جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا اور انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ دو قوی ہیکل کارندے آئینگے کہ انکا پیچھا کرکے وہاں جائے۔کیونکہ اس سے پہلے مراد نے پورے کھنڈر کا اندر سے جائزہ لیا تھا مگر اسے اندر کوئی دروازہ اور نشانی نہیں ملی۔لہذا وہ مجبور تھا کہ انکا کچھ دیر انتظار کریں۔مگر اچانک اس کے سامنے اندھیرے میں ایک جیپ آتی دیکھائی دی اور دیکھا کہ خاکی وردی میں ملبوس سپاہی نورین اور مہدی کو پکڑے ہوئے تھے انکے آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور دونوں کو اندر لے گیے۔
او نو یہ کیا ہو گیا یہ دونوں تو گرفتار ہو گئے۔
مراد کا ارادہ تو کچھ اور تھا مگر اب اس نے تبدیل کر دیا کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا۔
اس لئے اس نے ارادہ کیا کہ جیسے ہی وہ دونوں آئے گے میں انکے سامنے گرفتاری دے دونگا تاکہ خود مجھے اس کھنڈر کے خفیہ خانے میں لے جائے اسکے علاوہ اور کوئی چارہ نا تھا۔
سپاہی عمارت کے اندر داخل ہوئے اور چاروں طرف سخت پھیرے پر فوجی اہلکار موجود تھے۔نورین اور مہدی کو پکڑ کر ایک کمرے کے اندر لے گئے جہاں ایک بڑی سے میز کے پیچھے گھنی مونچھوں والا اور کالے رنگ کا کالا کلوٹا فوجی افسر بیٹھا ہوا تھا۔اسکے چہرے پر اطمینان کیساتھ ایک زہر آلود مسکراہٹ موجود تھی۔
اچھا تو یہ ہے شناستان ملک کے جاسوس۔۔ انکے آنکھوں سے پٹی ہٹاو اور کرسی پر سامنے بیٹھاو اور ہاتھ پیچھے سے مضبوطی سے باندھ دو۔
موہن داس میرے گلاس میں دارو ڈال دو اور ان مہمانوں کے لئے بھی گلاس لے آو ہاہاہاہا۔۔ مگر ٹہر جاو یہ تو پڑوسی ملک کے مسلمان ہیں یہ کہاں شراب پئے گے؟
کیا نام ہے تمھارا،اور کس مقصد سے تم لوگ ہندوستان کافرستان آئے ہو؟
تم جانتے ہو نا کہ ہم شانستانی لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں قید میں؟
ہاں میں جانتا ہوں جناب میرا نام وجے کمار ہے اور میں تاجر ہوں کتنی بار پوچھو گے؟
میں نے سنا تھا کہ نمبر ون کے جاسوس بہت خطرناک ہوتے ہیں مگر شاباش تم تو بہت بدی مان،مہان اور چالاک شخص ہو۔
مہدی نے کہا جتنا تشدد کرنا ہے کر لو مگر یہی حقیقت ہے ہمارا شناستان دیش سے کوئی تعلق نہیں۔ہم تو یہاں تجارت کا سامان خریدنے آئے ہیں جناب۔
یہ لوگ ایسے نہیں مانے گے شراب کا گلاس خالی کرنے کے بعد میجر کالی داس دوسرے کمرے میں چلے گئے اور وہاں سے میز پر پڑے ہوئے سرخ ٹیلی فون سے کال ملاتے ہوئے۔۔۔
ہیلو ہیلو۔۔سر میجر کالی داس از سپکینگ۔۔۔
بولو کالی داس کیا اپڈیٹ ہے؟
سر ہم نے دونوں نمبرون شناستانی جاسوس پکڑ لئے ہیں اور تیسرا مراد نامی بندہ ابھی غائب ہے وہ نہیں ملا۔۔اور ہاں اسرائیل دیش سے جناب سائنس دان آوارام آ چکے ہیں مشین نصب کرنے۔۔۔
ویل یہ اچھی خبر ہے سیکورٹی کا خاص خیال رکھنا سائنس دان کو لیبارٹری میں پیھج دو کہ وہ کام پے فورا لگ جائے ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے میں ایک گھنٹے کے اندر پہنچ رہا ہوں۔پہلے راشٹر پتی مدھو کرمو کو اطلاع دے دو۔اوور اینڈ آل۔۔
یار رامانند آج تو اچھی دارو پینے کو ملی چلو جلدی کرو۔۔دونوں آپس میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک انکے سامنے درخت سے مراد لڑکھڑاتے گر پڑا۔ارے باپ رے یہ دیکھو یہ سالا کون ہے رامانند؟
اپنے ہاتھ اوپر کرو ورنہ کھوپڑی اڑا دونگا ؟
ارے ارے اسکی کیا ضرورت ہے لو میں نے ہاتھ اٹھا دئیے۔۔میں کوئی اپنے جان کا دشمن ہوں جو حرکت کرونگا۔
ہاہاہاہا رامانند فخر سے ہسنے لگا کیا کہتے ہو؟ اس گدھے کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں باس کو بتائے گے شائد خوش ہو جائے؟کہاں لے جارہے ہو مجھے مراد پوچھنے لگا؟
چپ کرو بکو مت ورنہ مار دونگا یہی ہی۔
تینوں عمارت کے اندر گئے وہاں ایک خفیہ دروازہ تھا۔دیوار پے ایک خفیہ بٹن تھا اسکو دباتے ہی دیوار پیچھے ہٹنے لگی اور تینوں اندر داخل ہو گئے اور پھر خودبخود دیوار ایک جیسی ہو گئی اور دیوار غائب۔۔
مراد اندر کا ماحول دیکھ کر حیران ہو گیا۔جگہ جگہ آٹو میٹک مشین اور جدید اسلحہ پڑا ہوا تھا۔ہزاروں سائنس دان سفید گاون میں ملبوس اپنے کاموں میں مصروف تھے کئی شیشے کے سفید کیبن نظر آرہے تھے جہاں لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔
راہداری سے گزرتے وقت ایک کمرہ لوہے کا مکمل بند تھا۔مراد پوچھنے لگا ارے یہ ٹاٹ میں محمل کا پیوند۔۔۔کیسے سارے کمرے شیشے کے اور یہ لوہے کا؟ ایسا کیوں۔۔
رامانند بولا۔۔ گدھے ٹاٹ میں نہیں۔۔ بلکہ محمل میں ٹاٹ کا پیوند بہت بڑے جاہل ہو قسم سے ۔۔۔
آخر میں ایک کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مہدی اور نورین رسیوں سے بندھے ہوئے کرسیوں براجمان ہیں اور سامنے میجر کالی داس بیٹھا انکو دیکھ رہا تھا۔۔
سر ہم نے اس مشکوک شخص کو باہر سے گرفتار کیا ہے۔سوچا آپ ہمیں انعام دینگے۔۔
واٹ ناننس۔۔ گدھے،احمق،۔ اندر لانے کی کیا ضرورت تھی وہی مار دیتے تمھیں نہیں معلوم میں ان شناستانی جاسوسوں سے تفتیش کر رہا ہوں اور ابھی سائنس دان آوارم مشین نصب کر دینگے اور ہم ایٹمی دیش شانستان کی دفاعی لائن کو تباہ و برباد کر دینگے۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔
سر اس کا کیا کریں۔۔۔
کرنا کیا ہے اسکو باہر لیجا کر مار دو میرے پاس فضول ٹائم نہیں گیٹ لاسٹ۔۔۔
وہ دونوں مراد کو دوبارہ پکڑ کر راہداری کی جانب موڑ گئے۔۔کیوں تم دونوں کو انعام مل گیا؟ ہاہاہاہا
عجیب پاگل شخص ہے اسکی جان خطرے میں ہے اور یہ ہنس رہا ہے رامانند۔۔
کیا مجھے کھانا کھلانے لے جارہے ہو؟ مگر یاد رہے دوست مجھے مرغ مسلم بہت پسند ہے۔
تم چپ نہیں کروگے بدتمیز۔۔۔ رامانند جیسے ہی موڑ کے دیکھتا ہے۔مراد تیزی سے لات اسکے پیٹ میں مارتا ہے اور اسکی گردن پر پیر رکھ کے ایک جھٹکے سے اسے توڑ دیتا ہے۔دوسرا بندہ جب دیکھتا ہے کہ رامانند مر گیا تو فورا وہ جیب سے ریوالور نکالتا ہے کہ مراد اسکے سر پر زور سے گھونسا مارتا ہے اور وہ وہی گڑ جاتا ہے۔مراد جلدی میں اسکی تلاشی لیتا ہے تو اسکے جیب سے چابیوں کا گچھا نکلتا ہے۔
ریوالور تھام کر وہ راہداری میں آگے چلتا ہے اور اسی لوہے والے کمرے میں پہنچتا ہے وہاں بہت سارے بمب اور بارودی اسلحے کے ڈھیر تھے۔مراد وہاں سے چار پانچ بمب لیتا ہے اور عمارت میں جگہ جگہ پر بمب نصب کر دیتا ہے۔
اور واپس موڑتا ہے آخر اسکے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا مراد ہر کمرے کی تلاشی لیتا ہے۔آخری کمرے میں اسے بالآخر ایک بوڑھا سفید بالوں والا آدمی ملتا ہے۔مراد سمجھ جاتا ہے کہ باقی سارے ڈاکٹر لوگ شیشے کے کمروں میں تھے اور یہ بڈھا لوہے کے بلٹ فروف کمرے میں موجود تھا اس نے کہا آر یو آوارام ؟
یس یس کیا کام ہے؟ جوان
میجر کالی داس آپکو بلا رہے ہیں چلئے مشین سیٹ کریں۔اوکے چلو۔۔
مراد نہایت مودب اور خاموشی سے ڈاکٹر آورام کے پیچھے چل رہا تھا۔ڈاکٹر آوارم پہلے کالی داس کے پاس گیا کہ اچانک مراد نے اسکے کنپٹی پے پستول رکھ دی اور کہا خبردار اگر حرکت کی ؟
پہلے ان دو قیدیوں کی رسی کھولو ورنہ اس بڈھے کی کھوپڑی اڑا دونگا۔۔جلدی کرو۔
کالی داس مجبوری میں مہدی اور نورین کی رسیاں کھولتا ہے۔مہدی اور نورین اپنی پوزیشن سنبھال لیتے ہیں۔مراد انہیں کہتا ہے تم دونوں عمارت سے فوری باہر نکلو ۔۔۔
مگر مراد صاحب آپ؟
میری فکر مت کرو جلدی جاو۔۔۔اتنا وقت نہیں۔۔۔
مہدی اور نورین کسی نا کسی طرح عمارت سے باہر نکل جاتے ہیں۔
چلو کالی داس ۔۔۔ کالی ماتا کے جاہل پجاری چلو مشین کہاں نصب ہے ؟ وہاں چلو
کونسی مشین؟ کیا کہہ رہے ہو؟
زیادہ چالاکی کی ضرورت نہیں چلو جلدی۔۔۔
اچھا اچھا چلتا ہوں۔۔۔
کالی داس اسے ایک خفیہ کمرے کی جانب لے جاتا ہے اور وہاں داخل ہوتے ہی دو اہلکار اوپر سے مراد پر کودتے ہیں اور مراد زمین پر گر جاتا ہے اور کالی داس مشین کے سامنے کھڑے ہو جاتا ہے۔
ہاہاہاہا۔۔۔ہاہاہاہا بہت چالاک بنتے ہو؟ سور کے بچے۔
سائنس دان یہودی آوارام جیسے ہی مشین کی جانب بڑتا ہے تو مراد پستول سے اسکے سر کا نشانہ لیتا ہے اور گولی اسکے سرکے چھیڑے اڑا دیتی ہے۔یہ لو تمھارا انعام اب چلاو مشین اسکا موجد خلاص۔۔۔
کالی داس صدمے میں یہودی سائنس دان کی لاش پے جھکتا ہے۔اور مراد تیزی سے باہر نکلتا ہے اور راہداری سے نکل کے عمارت سے باہر نکل آتا ہے کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوتا ہے اور عمارت اسی مشین سمیت نیست و نابود ہو جاتی ہے۔
مہدی پریشانی میں نورین کو دیکھتا ہے؟ سر مراد ۔۔۔
اور سامنے مراد مسکراتے ہوئے میری جان نورین پریشان مت ہو۔۔۔
مشن از کملپیٹ۔۔۔
پاکستان زندہ باد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button