
حوصلہ افزائی
ثریا کا دل صاف ستھرا اور خالی صفحے کیطرح خالی تھا۔ اسنے اپنی زندگی کے خالی صفحات کو دیکھا، اس کا دماغ خالی تھا۔
اسکو ایک ادارے میں نوکری مل گئی۔
مگر ادارے کے نام نہاد تنقید نگاروں نے اتنی تنقید کی کہ ثریا ان سب سے ہار گئی۔
ایک بار پھر اسکا دل خالی ہو گیا۔
وہ لکھ نہیں سکتی تھی،
اور اس کے خواب بکھر گئے۔
حسرت
رفیق الدین ایک بہترین سائنس دان تھے۔
ایک دن اپنے تجربات اور قابلیت کی بنا کر چاند پر چلا گیا کتاب لکھنے۔
اس نے ایک کتاب لکھی،
لیکن وہ پڑھی نہیں گئی۔
اس کے الفاظ خلا میں کھو گئے تھے۔
لکھاری
وہ ایک مشہور مصنف تھے، آئیے دن لوگ اس سے آٹو گراف لیتے اسکے ساتھ تصاویر بناتے۔
اس نے کئی کتابیں لکھی مگر معاشی بدحالی اور سرکاری رویہ کیوجہ سے اسکی تخلیقات صرف صفحات تک محدود رہے۔
وقت کے دھول کیساتھ صفحات اڑ گئے۔
ان کی تخلیقات کو فراموش کر دیا گیا تھا۔
وہ تنہا مر گیا، اس کی میراث کھو گئی۔
” پلاننگ”
میں نے اپنی زندگی کی پوری پلاننگ کی ہے ڈیوڈ۔
وہ کیسے ماریہ؟
پہلے تعلیم،پھر نوکری،اسکے بعد محبت اور پھر شادی۔
کار سڑک سے پھسل گئی،
اور سب کچھ سیاہ ہو گیا۔
آخری آواز شیشے کے ٹوٹنے کی تھی۔
"جائیداد”
میں بہت خوش قسمت ہوں شیکر،کہ مجھ جیسی عمر رسیدہ عورت سے تم نے شادی کر لی۔
اسکے ہونٹوں پے مکروہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
میرا سب کچھ تمھارا ہے شیکر۔
اس نے دھوکہ دہی کا کڑوا ذائقہ محسوس کرتے ہوئے ایک گھونٹ لیا۔
اس کے شوہر نے اس کی کافی میں زہر ملا دیا تھا۔
"حسد”
وہ ایک مشہور ڈانسر تھی۔ملک کی نامور اور حسین آرٹسٹ تھی۔
اس کے آخری شو پر پردے بند ہو گئے۔
اسٹیج کے پیچھے، ایک مہلک واقعہ کا سامنا تھا۔
اسی مشہوری کی وجہ سے کسی نے اسے گولی مار دی۔
مدد
وہ ایک شاعر تھا۔
ساری زندگی غزلیں لکھتا رہا صفحات بھرتا رہا۔
کمزور معاشی بدحالی کیوجہ سے اچھے دنوں کا انتظار کرتا رہا۔
بالآخر ایک اخبار اسکا دیوان مفت چھپانے پر راضی ہوا وہ بہت خوش تھا۔
شاعر کی آخری سانسیں ایک نامکمل شعر پر گزر گئیں۔
دیوان چھپ گیا مگر شاعر مٹی تلے سو گیا۔
"خام خیالی”
وہ خود کو کچھ سمجھتا تھا ساری زندگی لوگوں کی تضحیک کرتا رہا۔
اپنے مشہوری کے لئے اس نے سیاست کو جوائن کیا وہ ایک نامور اور کامیاب سیاست دان بنا۔
آگے پیچھے خوشامدی لوگوں کا جھمگٹا لگا رہتا۔
مگر ایک دن صحت جواب دے گئی،اور بیمار پڑ گیا۔
دنیا اسے پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئی۔
اس کا آخری خیال بھول جانے کا تھا۔
اسکے قبر کے کتبے پے لکھا گیا مشہور سیاست دان۔
"گواہی”
آخری جملہ عدالت میں بولا گیا۔
یہ غریب آدمی بےگناہ ہے سرکار۔
یہ اسکا آخری جملہ تھا۔
لیکن اپنی جان کی قیمت پر۔
"مفلس ادیب”
اس نے ساری زندگی محنت کی کتابیں لکھی۔
جب لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ کتاب چھاپ دو۔
پبلشر کا خط موت کی سزا تھی،
جس نے مصنف کے خوابوں کو کچل دیا۔
ابدی شعلہ
ہماری محبت ابدی شعلہ بن گئی،سلیم۔
سلمی آو ہم اس محبت میں ڈوب جائیں اور کوئی ہمیں ڈونڈھ نا سکے۔
جیسے اندھیرے میں روشنی جلتی ہے۔ اسی طرح محبت کی گرمی میں، ہمارے دل ہمیشہ کے لئے ایک ساتھ دھڑکتے رہے گے۔
آو سلمی ایک ہو جائے۔
اور دونوں نے خود کو سمندر کے غضب ناک لہروں کے سپرد کر دیا،اور اس قدر گہرائی میں ڈوب گئے کہ واقعی انہیں کوئی نا ڈھونڈ سکا۔