آج 16 نومبر اردو میں طنز و مزاح کے سب سے بڑے شاعر ، الٰہ آباد میں سیشن جج، لسانُ العصر اور مشہور شاعر” اکبرؔ الٰہ آبادی صاحب “ کا یومِ ولادت ہے۔آپ 16 نومبر 1846 کو الہ آباد میں پیدا ہوئے اس لئے آپکے نام کیساتھ الہ آبادی لگتا ہے۔
آپکا اصل نام سیّد اکبر حسین رضوی تھ ، اور اکبرؔ تخلص تھا۔ ۱۶؍نومبر۱۸۴۶ء کو قصبہ بارہ، ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدارس اور سرکاری اسکولوں میں پائی۔ ۱۸۶۶ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیل دار مقرر ہوئے۔ ۱۸۷۲ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۸۰ء تک وکالت کی، پھر منصب کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ترقی کرکے سب آرڈینیٹ جج اور بعد میں جج مقرر ہوئے۔ آپکو’’خان بہادر‘‘* کا خطاب گورنمنٹ سے ملا۔ شعروشاعری کا شوق بچپن سے تھا۔
ﺍﮐﺒﺮؔ ﮐﻮ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﻣﻠﮑﮧ ﻗﺪﺭﺕ ﺳﮯ ﻋﻄﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺷﻌﺮ ﮐﮩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺗﻮ ﺷﺮﻓﺎ ﻣﯿﮟ ﺷﻌﺮ ﻭ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﭼﺮﭼﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﻮﮒ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﻣﺸﻐﻠﮯ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺷﻌﺮ ﻭ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﭼﺴﮑﺎ ﻟﮕﺎ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺟﺐ ﺍﮐﺒﺮؔ ﮐﮯ ﭼﭽﺎ ﺳﯿّﺪ ﻭﺍﺭﺙ ﻋﻠﯽ ﮐﻮ یہ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺷﻌﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﮨﮯ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺼﺮﻋﮧ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺼﺮﻉ ﻟﮕﺎﺋﻮ۔ ﻣﺼﺮ ﻉ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ؎
ﺑﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﺸﻖ ﮨﮯ ﻋﺸﻖ ﻣﺠﺎﺯﯼ ﺑﮭﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ
ﺍﮐﺒﺮؔ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﺱ ﭘﺮ ﯾﮧ ﻣﺼﺮﻉ ﻟﮕﺎﯾﺎ ؎
ﯾﮧ ﻣﺼﺮﻋﮧ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﯿﺎﺽِ ﭼﺸﻢ ﻭﺣﺪﺕ ﻣﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﭽﺎ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮐﺒﺮؔ ﮐﻮ ﺷﻌﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻠﮑﮧ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻋﻄﺎ ﮨﻮ ﺍ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﮐﺒﺮؔ ﺍﺏ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺷﻌﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺍ ﻟﮧ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮐﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺷﺎﻋﺮ ﻏﻼﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﻭﺣﯿﺪؔ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯﺷﻌ ﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺻﻼﺡ ﻟﯿﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺸﺎﻋﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﺎ ﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﻏﺰﻝ ﺳﮯ ﮐﯽ۔ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﻃﺒﯿ ﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﮕﯿﻨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮔﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮐﺒﺮؔ ﻣﺠﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺭﺑﺎﺏ ﻧﺸﺎﻁ ﺳﮯ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭ ﮯ۔ ﺍﺱ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﮕﯿﻨﯽ ﮨﮯ، ﺷﻮﺧﯽ ﮨﮯ، ﻏﺰﻝ ﮐﮯ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﻟﺐ ﻭ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﮯ ﮨﺠﺮ ﻭ ﻭﺻﺎﻝ ﮐﺎ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﻭﮦ ﺯ ﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻏﺰﻝ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﻟﻄﻒ ﺑﯿﺎﻥ، ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﭼﭩﺨﺎ ﺭﮮ، ﻗﺎﻓﯿﮧ ﭘﯿﻤﺎﺋﯽ۔ ﯾﮩﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺎﺕ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﻏﺰﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﻟﻔﻈﯽ ﮐﺎ ﺍ ﮨﺘﻤﺎﻡ، ﺩﻭﺭ ﺍﺯ ﮐﺎﺭ ﺗﺸﺒﯿﮩﺎﺕ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﻨﺠﻠﮏ ﭘﻦ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔
ﺟﻤﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﺐ ﻧﺎﺯﮎ ﭘﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﺍﭘﻨﺎ
ﯾﮧ ﺷﻮﺧﯿﺎﮞ ﺗﻮ ﺫﺭﺍ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺳﺮﺧﯽِ ﭘﺎﻥ ﮐﯽ
ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻋﺸﻘﯿﮧ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﻧﮩ ﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ؎
ﺟﺲ ﺣﺴﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻟﻔﺖ ﻭﮨﯽ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﺍﭘﻨﺎ
ﻋﺸﻖ ﮐﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺴﯽ
ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮨﻢ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺒﺮؔ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﻦ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﻭ ﺍﺣﺴﺎﺳﺎﺕ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻋﻤﻮﻣﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻟﯽ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺮﺟﻤﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺷﻌﺮ ﺩﺍﻍؔ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﺩ ﻻﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻏﺰﻝ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻭﺻﻒ ﺗﻐﺰﻝ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺟﻦ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻓﻄﺮﯼ ﮨﻮﮞ۔ ﺍ ﻥ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻋﺮ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺍﻭﺭ ﺿﺒﻂ ﻭ ﻧ ﻈﻢ ﮐﻮ ﻣﻠﺤﻮﻅ ﺭﮐﮭﮯ۔ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﻄﺎﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺩﻣﻨﺪﯼ ﮨﻮ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮐﺒﺮؔ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺑﮭ ﯽ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﻐﺰﻝ ﮨﮯ۔ ﺟﯿﺴﮯ ؎
ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ ﺟﻞ ﮐﮯ ﺧﺎﮎ ﮨﻮﺍ ﺷﻤﻊ ﺭﻭ ﭼﮑﯽ
ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺣﺴﻦ ﻭ ﻋﺸﻖ ﺟﻮ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ
ﺗﺼﻮﻑ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﮨﯽ ﺳﮯ ﻏﺰﻝ ﮐﺎ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺳﺒﮭﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﻭﮞ ﻧﮯ ﮐﻢ ﯾﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺼﻮﻑ ﮐﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﮐﮩﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﮐﺒﺮؔ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺗﺼﻮﻑ ﮐﮯ ﺷﻌﺮ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮨﻢ ﻧﮯ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﻖ ﮐﯽ ﺗﺠﻠﯽ ﭘﺎﺋﯽ
ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯽ ﺍٓﺋﯿﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺋﯿﻨﮧ ﮔﺮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﺍﮐﺒﺮؔ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻃﻨﺰ ﮐﺎ ﭘﮩﻠﻮ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻃﻨﺰ ﯾﮧ ﻭ ﻣﺰﺍﺣﯿﮧ ﺍﺳﻠﻮﺏ ﺟﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍٓﮔﮯ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﺪﮨﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﯿﺴﮯ ؎
ﮨﻢ ﺍٓﮦ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﺪﻧﺎﻡ
ﻭﮦ ﻗﺘﻞ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭼﺮﭼﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﭘﮭﺮ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﮐﺒﺮؔ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺑﺪﻟﻨ ﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺍٓﺳﻮﺩﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨ ﯿﮟ۔
ﻏﺰﻝ ﺍﯾﺴﯽ ﭘﮍﮬﻮ ﻣﻤﻠﻮ ﮨﻮ ﺟﻮ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ ﺳﮯ
ﮐﺮﻭ ﺍﺏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﺍﮐﺒﺮؔ ﮔﺬﺭ ﺍﭘﻨﺎ
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺍﺏ ﺍﻭﺭ ہوﮔﺎ
اکبرؔ بہت خلیق، ملنسار، مہمان نواز، ہمدرد اور بذلہ سنج تھے۔ ذہانت اور زندہ دلی کے جوہر آپ میں بھرے ہوئے تھے۔وطن پرستی کے ساتھ ساتھ ملّت اسلامیہ کیلئے بہت درد رکھتے تھے۔ بیدارمغز اور وسیع القلب انسان تھے۔ انگریزی تعلیم کے خلاف نہ تھے لیکن انگریزی تہذیب کی یلغار کے خلاف تھے۔
اکبرؔ کو شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ رفتہ رفتہ آپ کے کلام میں انفرادیت نمایاں ہونے لگی۔ ظرافت کے ساتھ ساتھ تصوف کے مضامین بھی کلام میں آنے لگے۔ طنزومزاح کے رنگ میں ڈوبی ہوئی اصلاحی شاعری میں کمال پیدا کیا
وحید الٰہ آبادی کے شاگرد تھے۔ مزاحیہ اور سنجیدہ دونوں طرح کی شاعری کی۔ طنزومزاح کے اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔
۹؍ستمبر۱۹۲۱ء کو الٰہ آباد میں انتقال کرگئے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کو ’’لسانُ العصر‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ’’کلیاتِ اکبر‘‘ چار حصوں میں چھپ گئی ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:218
💐🌸 لسانُ العصر اکبرؔ الٰہ آبادی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
—
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
—
اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
—
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے
—
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
—
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
—
جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ
حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامۂ اعمال دیکھ
—
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
—
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
—
قامت سے ترے صانعِ قدرت نے اے حسَیں !!
دکھلا دیا ہے حشر کو سانچے میں ڈھال کے
—
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
—
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
—
نکالا کرتی ہیں گھر سے یہ کہہ کر تو تو مجنوں ہے
ستا رکھا ہے مجھ کو ساس نے لیلیٰ کی ماں ہو کر
—
غم و رنج میں اکبرؔ اگر ہے گھِرا تو سمجھ لے کہ رَنج کو بھی ہے فنا
کسی شے کو نہیں ہے جہاں میں بَقا وہ زیادہ ملُول و حزِیں نہ رہے
—
نہ تو کچھ فکر میں حاصل ہے نہ تدبیر میں ہے
وہی ہوتا ہے جو انسان کی تقدیر میں ہے
—
تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا
مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر
—
خُدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ھے ، اے اکبرؔ
یہی وہ دَر ھے ، کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
—
یہ دلبری یہ ناز یہ انداز یہ جمال
انساں کرے اگر نہ تری چاہ کیا کرے
—
بولے کہ تجھ کو دین کی اصلاح فرض ہے
میں چل دیا یہ کہہ کے کہ آداب عرض ہے
—
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
—
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
—
ﻏﻢِ ﺧﺎنہِ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻭُﻗﻌﺖ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ
ﺍﮎ ﻧﺎ ﺷُﻨﯿﺪﮦ ﺍُﻑ ﮨﯿﮟ ، ﺍﮎ ﺁﮦِ ﺑﮯ ﺍﺛﺮ ﮨﯿﮟ
—
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
—
سو جان سے ہو جاؤں گا راضی میں سزا پر
پہلے وہ مجھے اپنا گنہ گار تو کر لے
—
کچھ طرزِ ستم بھی ہے کچھ اندازِ وفا بھی
کھلتا نہیں حال ان کی طبیعت کا ذرا بھی
—
تمہارے وعظ میں تاثیر تو ہے حضرتِ واعظ
اثر لیکن نگاہِ ناز کا بھی کم نہیں ہوتا
—
عشوہ بھی ہے ، شوخی بھی ، تبسّم بھی ، حیا بھی
ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی ۔۔ !!
—
حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے
ہاں اے نگاہِ شوق ذرا دیکھ بھال کے !!
—
رہ و رسمِ محبت ان حسینوں سے میں کیا رکھوں
جہاں تک دیکھتا ہوں نفع ان کا ہے ضرر اپنا
—
تحسین کے لائق ترا ہر شعر ہے اکبرؔ
احباب کریں بزم میں اب واہ کہاں تک