ہم ڈھلتے سورج کے ساتھ آغوش میں داخل ہو گئے،سورج کی قرمزی شعائیں آغوش میں کھیلتے بچے کو جھانک رہی تھی، لان میں زیادہ تر بچے مختلف ٹولیوں میں مختلف کھیل کود میں مصروف تھے، ایک طرف جہاں بچے کرکٹ کھیل رہے تھے تو وہاں دوسری طرف بیڈ مینٹن کھیلا جارہا تھا، یہاں ہمارے استقبال کیلئے الخدمت فاؤنڈیشن کے صوبائی اسسٹنٹ ڈائریکٹر فضل محمود، ضلعی صدر حفیظ اللہ خاکسار اور سنٹر کے انچارج سعید اللہ موجود تھے، جنہوں نے پہلی فرصت میں ہمیں اپنی رہنمائی میں آغوش کے مختلف شعبوں کی وزٹ کرانے لگے، آغوش کے مین بلڈنگ کے اندر بھی بچے بیڈ مینٹن کھیل رہے تھے، لیکن ہم سے بالکل بے نیاز، انداز بالکل مختلف کوئی شور شرابا چیخ و پکار بالکل نہیں تھا، بچوں کے چہروں پر اداسی کے بجائے اطمینان کا جھلک تھا،سو ہم نے دل میں کہا بچا کے لائیں کسی بھی یتیم بچے کو اور اس کے ہاتھ سے تخلیق کائنات کریں، ہمیں بچوں کے رہائشی کمرے دکھائے گئے جہاں بچوں کے صاف ستھرے بستر، الماریوں میں ہر بچے کا مختلف روز مرہ کی اشیاء تولیے، ٹوتھ پیسٹ، برش، کپڑے کتابیں اور دیگر اشیا زبردست سلیقے سے رکھے گئے تھے، بتایا گیا کہ یہ روز کا معمول ہے، کمرے کے باہر ان بچوں کی تصاویر عمر اور مختصر ایڈریس لکھا گیا تھا، ہمیں بتایا گیا ہے ہر کمرے میں ہم عمر بچے رکھے گئے ہیں، ڈائننگ ہال کچھ بچے لڈو کھیل رہے تھے، اوپری منزل پر بھی کچھ بچے بہت مہارت کیساتھ ٹیبل ٹینس کھیلنے میں مشغول تھے، جبکہ یہاں کچھ بچے میز پر رکھے گئے اخبارات پڑھنے میں مصروف تھے، حفیظ اللہ خاکسار ہمیں ساتھ ساتھ بریف کرتے رہے، انھوں نے بتایا کہ یہ عمارت 2019 میں تعمیر کیا گیا ہے،
جی ہاں بات کیجارہی ہے آغوش سنٹر گل آباد چکدرہ کی جس میں اس وقت 84 یتیم بچوں کی نہ صرف بہترین کفالت کیجارہی ہے بلکہ انھیں معیاری تعلیم کیلئے یہاں کے سٹینڈرڈ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں داخلہ دلواکر انکی تعلیمی اخراجات پورے کئے جارہے ہیں،چار کنال پر مشتمل اس عمارت میں 18 کمرے ہیں جس میں 84 یتیم بچے رہائش پذیر ہیں، ہر ایک بچے کا ماہانہ خرچہ 25 ہزار ہے جوکہ سالانہ تین لاکھ روپے بنتے ہیں، یہاں پر ملاکنڈ ڈویژن کے 7 اضلاع ضلع لوئر دیر، اپر دیر، شانگلہ،باجوڑ ،سوات ،چترال اور ضلع ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے یتیم بچے الخدمت فاؤنڈیشن کے زیر کفالت ہیں، آغوش سنٹر کے دورے کا سبب کچھ اس طرح بنا کہ کچھ دن قبل الخدمت فاؤنڈیشن لوئر دیر کاایک زمہ دار بلال غوری پریس کلب تیمرگرہ تشریف لائے تھے جہاں پر باتوں باتوں میں آغوش سنٹر گل آباد کا زکر آیا، سو میں نے ذکر کیا کہ مجھے کبھی یہاں جانے کا موقع نہیں مل سکا ہے جس پر بلال غوری نے اس دورے کو ممکن بنایا جس کا کریڈٹ بجا طور پر اس کو ہی جاتا ہے، پریس کلب کے ممبران نے صدر اسماعیل انجم کی قیادت میں آغوش الخدمت مرکز گل اباد کا دورہ کیا۔مقامی صحافیوں نے مرکز میں مقیم مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے یتیم بچوں کے ساتھ وقت گزارا اور ان کے مختلف سرگرمیوں میں ان کا ساتھ دیا۔صحافیوں نے مرکز میں یتیم بچوں کو دستیاب رہائش، تعلیم و تربیت، خوراک،ادویات،واش روم، ائی ٹی لیب،کانفرنس ہال وغیرہ کا بھی معائنہ کیا۔بعد میں سنٹر میں صحافیوں کا باہمت آغوشین کے ساتھ ایک شام کے عنوان سے ایک تقریب منعقد ہوئی جس سے الخدمت فاونڈیشن کے مرکزی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل فضل محمود۔ضلعی صدر حفیظ اللہ خاکسار ایڈوکیٹ، ایڈمنسٹریٹر سعید اللہ، ڈسٹرکٹ پریس کلب تیمرگره کےصدر اسماعیل انجم، چکدرہ پریس کلب کے صدر شاہ فیصل افغانی اور سینیئر صحافی حلیم اسد نے خطاب کیا اور مرکز کی جانب سے یتیم بچوں کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہا۔ اس موقع پر الہدی سکول چکدرہ کی جانب سے صحافیوں میں تحائف اور توصیفی اسناد بھی تقسیم کیے گئے۔اپنے بریفنگ میں حفیظ اللہ خاکسار کا کہنا تھا کہ ضلع دیر پائین، دیر بالا، چترال، باجوڑ وغیرہ اضلاع سے کل چوراسی یتیم بچے مرکز میں زیر کفالت ہیں جہاں ان کی مفت تعلیم، رہایش، علاج اور کھیل کود پر توجہ دی جارہی ہے۔انھوں نے کہا کہ ہر بچے پر سالانہ تین لاکھ روپے خرچ کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ روزانہ ہر بچے کو تیس روپے جیب خرچ، ایک ہزار عیدی اور نئے کپڑے بھی آغوش الخدمت مرکز فراہم کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سنٹر2019 میں قائم ہوا ہے اور ابھی تک اس کا پہلا بیج چل رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آغوش الخدمت گل اباد کے ساتھ مقامی اور غیر مقامی مرد و خواتین ڈونرز ہر سال ہر ممکن مالی تعاون کرتے ہیں جن کی امداد کی وجہ سے یہ مرکز ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔انھوں نے کہا کہ مرکز میں مزید بچوں کیلئے گنجائش نہیں اگر اس کی عمارت میں ایک اور منزل کا اضافہ کیا جائے تو پھر مزید بچوں کو بھی داخلہ مل سکتا ہے۔مقامی صحافی یہاں مقیم یتیم بچوں کو دیئے جانے والے سہولیات کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کا کہنا تھا کہ امیر گھرانوں میں بھی بچوں کو ایسی سہولیات بہم پہنچانا مشکل ہے۔
یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں۔ ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاس داری ہے اور اس سے منہ موڑ لینا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔یتیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں 23 مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اُن کے اموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اُن پر ظلم و زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنے والے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کرے ، اَحادیث میں یتیم کی پرورش اوراس سے حسن سلوک کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے چند درجِ ذیل ہیں۔رسولِ اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، پھراپنی شہادت والی اور در میان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔ (صحیح بخاری)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، امامُ الانبیاءﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمے داری لی، اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل فرمائے گا ۔(جامع ترمذی)رسول اکرم ﷺنے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی بشارت سے نوازا ہے کہ وہ جنت میں آپﷺ کے ساتھ ہو گا ۔حضرت سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : میں اوریتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کرکے اشارہ کیا ۔( صحیح بخاری )حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا خواہ وہ یتیم اس کا رشتے دار ہو یا غیر، جنت میں اس طرح ہوں گے، جیسے یہ دو انگلیاں۔(صحیح مسلم) امام مالکؒ نے اس حوالے سے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔بچہ اپنی ہر ضرورت کے لیے ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر وہ ماں باپ کے سہارے سے محروم ہو جائے تو پھر اس سے زیادہ بے بس و بے کس شاید ہی اور کوئی ہو۔یتیم ہونا انسان کا نقص نہیں ،بلکہ منشائے خداوندی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اُس نے اپنے محبوب ترین بندے سید المرسلین ﷺ کو حالتِ یتیمی میں پیدا فرمایا کہ آپ ﷺ کے والد ماجد آپﷺ کی ولادت با سعادت سے بھی پہلے وصال فرما چکے تھے۔پھر چھ سال کی عمر میں ہی آپ ﷺکی والدہ ماجدہ بھی انتقال فرما گئیں۔ اللّہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی اس کیفیت کا ذکر قرآن حکیم میں یوں کیا ہے :’’(اے حبیبﷺ!) کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایا، پھر اُس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانہ دیا‘‘پھر اس دُرِّ یتیمﷺ نے یتامیٰ کی محبت، ان کے ساتھ شفقت و حسنِ سلوک اور اِحسان برتنے کی نہایت اعلی مثالیں قائم کیں۔آپﷺ نے یتیموں کی کفالت کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی اور اُن کے حقوق پامال کرنے والے کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔حضرت ابو ہریرہؓروایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ)حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کو عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی،اس سے نرمی سے گفتگو کی،اور معاشرے کے محتاجوں و کمزوروں پر رحم کیا، اور جس نے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی عطا کی وجہ سے اپنے پڑوسی پر ظلم نہ کیا۔ پھر فرمایا : اے اُمتِ محمدی! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف سے صدقہ قبول نہیں کرے گا جس نے غیروں پر صدقہ کیا، حالانکہ اُس کے اپنے رشتے دار اُس صدقہ کے محتاج تھے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اﷲ تبارک و تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔‘‘(طبرانی)حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں: ’’جسے کسی یتیم کے مال کا ولی بنایا گیا تو اُسے چاہیے کہ وہ اُس مال سے تجارت کرے اور اُسے یوںہی پڑا نہ رہنے دے، مبادا زکوٰۃ ادا کرتے کرتے وہ مال ختم ہوجائے۔‘‘(بیہقی،سنن الکبریٰ)یہ تمام احادیث گرچہ یتیم کی کفالت کے سلسلے میں ترغیب وفضائل کی ہیں، تاہم ان سے یہ بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ اس طرح کے نادار، لاوارث اور یتیم بچوں کی کفالت مسلمانو ں کے ذمے ہے۔حسب سہولت علاقے اور محلے کے افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوگی۔ان بچوں کو یوں ہی ضائع ہونے نہیں دیا جائے گا۔ اگر کچھ لوگ اس ذمہ داری کو بہ طور کفایہ نبھا لیتے ہیں، تو سب بری الذمہ ہوجائیں گے ،ورنہ سب کے سب گنہگار ہونگے۔
زندگی خوشیوں اور غموں سے عبارت ہے اور اگر یہی بچپن میں یتیمی کا ہو تو اس کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ان بیامی کے سر پر دست شفقت رکھ دیتا ہے تو غم کی شدت میں ایسے ہی کمی آجاتی ہے جیسے تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں کا سایہ میسر آجائے ۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد 46 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جن میں اکثریت 17 سال سے کم – عمر بچوں کی ہے ۔ وطن کے یہ انمول ہیرے تعلیم و تربیت اور بنیادی سہولیات نہ
ملنے کی وجہ سے سماجی و معاشرتی محرومیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن اسی ضرورت کے پیش نظر قوم کے ان نونہالوں کے مستقبل کو بچے روشن کرنے کے لیے الخدمت کفالت یتامی پروگرام کے عنوان سے کام کر رہی ہے ہے۔ جس کا مقصد یتیم بچوں کا سہارا بن کر انہیں تعلیم و تربیت اور دیگر بنیادی ضروریات کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے تا کہ مستقبل کے یہ معمار با اعتماد شہری کے طور پر ملک وملت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔
مخیر حضرات جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی خیرات زکوٰۃ مستحقین کو پہنچے تو آغوش کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ کیونکہ کفالتِ یتیم سے… جنت کا حصول بھی….. رفاقتِ رسول بھی ۔