حضرت آدم علیہ السلام کو تعلیم الاسماء

از:قلم: نورین خان

Spread the love

تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد آپکو تمام کائنات سے روشناس کرایا گیا۔کیونکہ جب تک انکو تمام اشیاء کا اور انکے خواص کا علم نا دیا جاتا تو وہ زمین کی نیابت و خلافت کا فریضہ ادا نہیں کر سکتے تھے،اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جب کسی شخص کو کسی ضلع یا تحصیل کا حاکم بنایا
جاتا ہے تو اس کو وہاں کے تمام تفصیلی حالات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ورنہ وہ حکومت کے صحیح فرائض انجام نہیں دے سکتا اسی طرح حق تعالٰی نے بھی کائنات کی تمام اشیاء اور ان کے خواص حضرت آدم علیہ السلام کو تعلیم فرمائے ۔ (کشف الرحمن) اور تفسیر عزیزی میں ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ
علمه كل شئ حتى القصعة والصيعه
یعنی سکھلائے ان کو ہر چیز کے نام یہاں تک کہ پیالہ اور پیالی کا نام بھی بتایا۔
اور سعید بن جبیر نے فرمایا ہے کہ
حتى البعير والبقرة والشاة یہاں تک کہ اونٹ اور بیل اور بکری کے نام بھی آپکو سیکھائے۔
اسی طرح بیان کیا ہے۔
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلِئِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ
( سورة البقرة) –
اور اللہ نے چیزوں کے نام آدم کو سکھا دیئے ، پھر وہ چیزیں فرشتوں کے رو برو رکھ دیں پھر ان سے
، کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں ” کے نام بتاؤ۔
اللہ نے اس کے بعد وہ چیزیں فرشتوں کو دکھلا کر ان کے نام ان سے دریافت کئے تو انھوں نے اپنے عجز کا اعتراف کیا کیونکہ نہ وہ اس خدمت کے اہل تھے اور نہ وہ بشری ضروریات سے واقف تھے اور نہ ان کو اس قسم کی چیزیں بتائی گئی تھیں ۔ اس لئے ان کو سوائے لَا عِلْمَ لَنَاکے اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔
قَالُو اسْبُحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ۔ فرشتوں نے کہا کہ آپکی ذات پاک ہے
ہمیں معلوم نہیں مگر اس قدر جتنا آپنے ہمیں سکھایا ہے۔ بلاشبہ آپ بڑے علم والے اور حکمت والے ہیں۔(البقرة)
پھر اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہا کہ اسکے
نام پتا ہے ، چنانچہ انھوں نے تمام چیزوں کے نام وخواص بتانا شروع کر دیئے۔ اس سے محض حضرت آدم علیہ السلام کی تعلیمی قابلیت کا
اظہار تھا، ورنہ ظاہر ہے کہ فرشتوں میں سب باتوں کے سمجھنے کی قابلیت ہی کہاں تھی۔ جن میں استعداد خیر وشر نہ ہو اور جو انسانی طبیعت کے خوگر نہ ہوں۔خواہ وہ جنات ہوں یا فرشتے۔نہ وہ نیابت وخلافت کے اہل ہو سکتے ہیں ۔فرشتوں میں تو شر کی صلاحیت ہی نہیں البتہ جنات میں خیر کی صلاحیت تو ہے۔مگر ان میں شر کا اس قدر غلبہ ہے کہ ان میں خیر کی صلاحیت بہت کمزور اور ضعیف ہے۔ لہذا انسان ہی اس کا اہل تھا اور اسی
کو ہر چیز کا علم دیا گیا۔ نیز اس واقعہ سے عالم کی عابد پر فضیلت بھی ظاہر ہوگئی جیسا کہ نبی کریم نے فرمایا ہے کہ ۔
فضل العالم على العابد كفضلى على ادناكم۔
ایک عالم کو عابد پرایسی فضیلت اور بزرگی حاصل ہے جیسے میری بزرگی ایک معمولی درجہ کے
مسلمان پر۔ (کشف الرحمن )
بہر حال جب حضرت آدم علیہ السلام نے تمام نام بتا دیے تو اللہ تعالیٰ نے حجت قائم کرتے ہوئے فرمایا۔
قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ، وَاعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُم تَكْتُمُونَ (البقرة)
اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ کیا میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ بلا شبہ میں آسمانوں اور زمین کی تمام پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہوں ،اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ رکھتے ہو سب مجھے معلوم ہے۔سجدہ کا حکم حضرت آدم علیہ السلام کی اس فوقیت اور برتری کے بعد فرشتوں کو حکم دیاگیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔
جیسا کہ ارشاد ہے۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلِئِكَةِ اسْجُدُوا لِأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ ،أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الكفِرِينَ
(پ اول، سورۃ بقرہ ارکوع ۴)
اور جب کہا ہم نے فرشتوں کو کہ سجدہ کرو واسطے آدم کے پس سجدہ کیا سب فرشتوں نے مگر شیطان نے انکار کیا اور تکبر کیا اور تھا
کافروں سے۔سب سے پہلے حضرت اسرافیل علیہ السلام نے سجدہ کیا ( تفسیرعزیزی) اب ابلیس کا تکبر اور غرور ظاہر ہوگیا۔
شیطان کا سجدہ سے انکار اور مناظرہ
پروردگار عالم جل جلالہ، نے کہا اے ابلیس تو نے سجدہ کیوں نہ کیا جب کہ میں نے حکم دیا تھا جیسا کہ فرمان ہے
مَا مَنَعَكَ الَّا تَسْجُدَادُ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍو خَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ (سورۃ اعراف) کس نے منع کیا تجھ کو جب حکم دیا تھا میں نے۔کہا شیطان نے میں آدم سے بہتر ہوں مجھے پیدا کیا گیا ہے آگ سے اور اس کو پیدا کیا کیچڑ ہے۔اس سے میں بڑا بھی ہوں اور بڑی عمر والا بھی ہوں اور قوی بھی ہوں اور مضبوط ہوں آگ مٹی سے قوی ہوتی ہے۔ دوسرے مقام پر ہے کہ
كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ تھا شیطان جنوں سے پس
امر ربه اور تیسرے مقام پر ہے۔
اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔
وَلَقَدْ خَلَقْنكُمْ ثُمَّ صَوَّرُنَكُمُ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَائِكةِاسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُو إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ الشَّجدِينَ .(سورہ اعراف رکوع ۲)اور البتہ تحقیق پیدا کیا ہم نے تمکو پھر صورتیں بنائیں تمہاری پھر کہا
ہم نے فرشتوں کو سجدہ کر و واسطے آدم کے پس سجدہ کیا سب فرشتوں نے مگر نہ کیا شیطان نے اور نہ ہوا جھکنےوالوں سے۔
اس کے انکار پر پروردگار عالم جل جلالہ نے فرمایا قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَالَكَ أَلَّا ابلیس تَكُونَ مَعَ الشَّجِدِينَ ( سورة الحجر) فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ اے ابلیس کیا ہے واسطے تیرے کہ نہ ہوا تو سجدہ کرنے والوں سے۔
شیطان نے جواب دیا کہ مجھے لائق نہیں کہ میں بشر کو سجدہ کروں جو پیدا کیا ہے تو نے بجنے والی مٹی سے جو بنی ہوئی تھی کیچڑ سری ہوئی سےاور ایک مقام پر شیطان نے کہا۔
أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ قَالَ فَاخْرُجُ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْتَنِي إلى يَوْمِ الدِّينِ .(سورۂ فن پاره ۲۳)
کہا شیطان نے میں بہتر ہوں اس سے پیدا کیا ہے تو نے مجھ کو آگ سے اور اس کو پیدا کیا مٹی سے فرمایا اللہ تعالی نے کہ نکل جا اس
جگہ سے بیشک تو راندہ کیا گیا ہےاور تیرے پر لعنت ہے قیامت تک۔شیطان نے جواب دیا کہ مجھے لائق نہیں کہ میں بشر کو سجدہ کروں جو پیدا کیا ہے تو نے بجنے والی مٹی سے جو بنی ہوئی تھی کیچڑ سڑی ہوئی سے اور ایک مقام پر شیطان نے کہا۔
رَبِّ فَانظُرُنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ(سورة حجر ) اے میرے رب مجھے ڈھیل دے اس دن تک کہ اٹھائے
جائیں مردے۔ یعنی موت کی سختی مجھے نہ ہو کیونکہ یہ سیاست تھی کہ موت کی تکلیف سے بچارہوں گا۔ لیکن پروردگار عالم نے فرمایا بیشک تو ڈھیل دیئے گیوں سے ہے إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوم ، ایک وقت معلوم تک۔ یعنی جہان کے فنا ہونے تک ۔ جب اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے وعدہ فرما دیا تو شیطان نے اپنے دل کی حسد ظاہر کر دی۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَا غُوِيَنَّهُمُ. أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ(سورہ ص) پس قسم ہے تیری عزت کی کہ گمراہ کروں گا میں سب کو مگر تیرے خالص بندے یعنی جن پر رحمت شامل حال ہو وہ بچ جائیں گے۔پروردگار عالم جل جلالہ نے فرمایا میری بھی سچی بات ہے قَالَ فَا لُحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ ، لَامُلَتَنَ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعَيْنَ
(سورة ص ) فرمایا میں سچ کہتا ہوں اور میں ہمیشہ سچ کہا کرتا ہوں بیشک بھر دوں گا دوزخ کو تجھ سے اور تیرے تابعداروں سے سب اکٹھے ۔
جب خدا کے حکم سے سب فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی تو شیطان نے انکار کر دیا کیونکہ وہ فرشتوں کی جنس سے نہ تھا جنات میں سے تھا اپنی طبعی خباثت اور جبلی سرکشی سے ظاہر ہو گیا پھر خدا تعالیٰ جل جلالہ فرمایا کہ میرے حکم کی تو نے مخالفت کی ہے اب تو ہمیشہ لعنتی ہے۔ حضرت حوا کی پیدائش حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ شیطان کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد حضرت آدم کا علم ظاہر کرکے پھر ان پر اونگھ ڈال دی گئی پھر ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا فرمایا۔ تفسیر عزیزی میں ہے کہ فرشتوں سے حضرت آدم کی پسلی کو چیر کر حضرت حوا کو نکلا پھر پہلی کو،سی دیا اور آدم علیہ السلام خبر بھی نہ ہوئی۔جب حضرت آدم علیہ السلام آنکھ کھولی تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے انس اور محبت پیدا ہو گئی پھر پروردگار عالم جل جلالہ، کے حکم سے فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام سے جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر دس دفعہ درود شریف پڑھایا پھر پروردگار عالم جل جلالہ، نے انھیں آدم کے نکاح میں دے دیا۔ یہ درود بی بی حوا کے مہر میں پڑھائی تھی۔
جنت میں داخلہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کی دوسری بزرگی بیان ہوتی ہے۔ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد بی بی حوا کو پیدا فرمایا پھر رہائش کے واسطے جنت میں رہنے کا حکم دیا چنانچہ ارشاد ہے۔وَقُلْنَا يَادَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلاً مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا فَتَكُونَا مِنَ الظَّلِمِينَ ( پاره اول سوره بقر و رکوع ۴) اور کہا ہم نے اے آدم علیہ السلام تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو بافراغت کھاؤ اور اس درخت کے ان کو اللہ قریب بھی نہ جانا ورنہ تم ظالموں سے ہو جاؤ گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button