بٹ خیلہ: عام انتخابات میں مالاکنڈ کی سیاست میں زبردست اتار چڑھاو

Spread the love

بٹ خیلہ(مدثرطاہریوسفزئی نمائندہ خصوصی)

عام انتخابات میں مالاکنڈ کی سیاست میں زبردست اتار چڑھاواور عجیب قسم کی صورت حال سامنے آئی ہے اور اے این پی اس وقت سخت ‘‘ ٹینشن’’ میں دکھائی دیتی ہے

دوسری طرف تحریک انصاف مختلف انتخابی نشانوں اورپارٹی کے بے شمار آزادامیدواروں کی جھنجھٹ میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے

جبکہ جمعیت علما اسلام مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کا انتخابی مہم کی رفتار کچھ زیادہ متاثرکن نہیں

البتہ پیپلزپارٹی کا کچھ بہتر لگ رہاہے قبل ازیں پیپلزپارٹی کے سابق وفاقی وزیر لعل خان کے ایک فرزند کا پی ٹی آئی پ اور دوسرے کا مسلم لیگ ن میں جانے سے نہ صرف پیپلزپارٹی سے ہمیشہ کا ناطہ توڑ بیٹھے تو گھر میں بھی ایک بڑی دراڑ پڑگئی بانی،

بزرگ اورمانے ہوئے سیاستدان لعل خان کے گھرمیں سیاست کا یہ عجیب قسم کا تماشہ ناقابل یقین اور جگ ہنسائی کاسبب بناایک فرزند نعیم لعل خان کو مسلم لیگ ن کی صوبائی اسمبلی کی نشست مل چکی ہے

جبکہ دوسرے فرزند اسدلعل خان کاغذات نامزدگی کے باوجود خاموش ہےاس حوالے سے پیپلزپارٹی کے مقامی قائدین نے نہ منانے کی کوشش کی اور نہ ہی اس جانب توجہ دی بلکہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ لعل خان اوران کے خاندان کی پیپلزپارٹی سے جانے پر شکرادا کیاگیا

خصوصاضلعی صدر نامزد امیدوار قومی اسمبلی احمد علی شاہ باچہ اور سابق وزیر نامزد امیدوارصوبائی اسمبلی انجینئر ہمایوں خان نے تو ‘‘نوافل‘‘ بھی ادا کی ہوگی۔

اے این پی میں زبردست اورغیریقینی صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب عین وقت پر ضلع صدر قومی اسمبلی کے نامزد امیدواراعجازعلی خان نےکچھ وجوہات پر اپنے کاغذات واپس لیے جس پرصوبائی صدر ایمل ولی خان کی جانب سے سوشل میڈیا پر اعجازخان کو شوکازنوٹس میں اس طرح مخاطب کیاگیا جیسے بات بہت دور تک بلکہ ذاتی اناوں تک جاپہنچی ہے اعجاز خان پر پیپلزپارٹی کے امیدوار ہمایوں خان کی ممکنہ حمایت،

پارٹی کے صوبائی امیدوارکے خلاف کام کرنے اور کاغذات نامزدگی بغیر بتائے واپس لینے کے الزامات لگائے گئے

جبکہ اعجاز خان کے حامیوں نےہنگامی اجلاس منعقد کی اور واضح کیا کہ صوبائی قیادت نے اعجاز خان کو لاعلم رکھا اورنہ صرف اس نشست پر کسی دوسری جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کی بلکہ اخری وقت تک انہیں ٹکٹ دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا جس کی وجہ سے اعجاز خان احتجاجاً دستبردارہوئے

دلچسپ بات یہ کہ صوبائی صدر ایمل ولی نےاعجاز خان سے تین دن کے اندر اندر تسلی بخش جواب طلب کیا ہے تو اے این پی بٹ خیلہ نےصوبائی صدرایمل ولی خان کی شوکاز نوٹس کی شدید الفاظ میں مذمت کی تمام تر الزامات مسترد کیے اور اس فیصلے کے خلاف پورے تحصیل کی سطح پر احتجاجی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا

اب دیکھنا یہ ہے کہ ‘‘اونٹ’’ کس کروٹ بیٹھتاہے لیکن ظاہر ہے کہ ان حالات میں صوبائی قیادت کا سخت فیصلہ نہ صرف اے این پی ایک اہم سیاسی رہنما اور کارکنوں سے محروم ہوسکتی ہے بلکہ اعجازخان کو بھی سیاست چلانا مشکل ہوجائے گا

قطع نظر اس سب معاملات کے لیکن یہ بھی لگ رہاہےکہ یہ کوئی سیاسی چال ہوسکتی ہے اوراس نشست پرپیداکردہ حالات خودساختہ ہے کیونکہ اعجاز خان شروع ہی سے قومی نشست کے خواہش مند نہ تھے اور ان کی نظریں صوبائی نشست پر تھی جو اے این پی نے نہ دی اور اس کے نامزدامیدواراظہارخان سے ان کی کچھ خوشگوارتعلقات بھی نہیں بلکہ دونوں ایک ہی پارٹی میں ہمیشہ حریف ہی نظرآئے مطلب ایک الگ دھڑا کئی سال سے چلاآرہاہے

انتخابی مہیم میں جماعت اسلامی کوئی خاص شمولیتں تاحال حاصل نہ کرسکی البتہ پارٹی کے قائد سنیٹر مشتاق احمدخان کی قیادت میں ورکرزکنونشن میں کامیاب ہوئی جو کچھ زیادہ متاثرکن نہیں رہی ایک بڑے گراونڈ کو ایک چھوٹے سے کنونشن ہال میں تبدیل کرناپڑا

اسی طرح پاکستان تحریک انصاف تاریخ کی عجبیب ترین وقت سے گزررہی ہے اور اس وقت انتخابی نشانوں سے لے کر بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں تک تاحال اس کشمکش سے نہیں نکلیں کہ پارٹی کے نامزد کردہ امیدواران قومی نشست جنیداکبراور صوبائی نشستوں بالترتیب شکیل خان اور مصور خان جو ازاد حیثیت میں میدان میں موجود ہے کے حق میں دستبردارہوجائیں اور یا وہ خود ہی ازاد حیثیت میں الیکشن لڑائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button