افسانہ ۔۔۔۔سلیم میاں

از: قلم نورین خان پشاور

Spread the love

کہاں ہو ستارہ۔۔۔جلدی آو مجھے ایک کپ چائے تو دینا بٹیا۔

ستارہ نے اخبار جہاں رسالہ بند کیا اور رسالے کو تپائی پر رکھ دیا۔آرام سے کرسی سے اٹھی اور ٹہلنے لگی۔ستارہ اپنے سوچوں میں گم تھی۔۔

اچانک پھر سے دادی کی آواز سنائی دی۔۔۔ستارہ بیٹی جلدی آو۔۔۔

اجنبی! اسلام علیکم

چچا حلوائی! وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبارکتہ

چچا حلوائی ایک مسئلہ تو حل کروائیں احسان ہو گا مجھ کر۔عرض کروں پیرومرشد! خاکسار،ایک ذرہ بےمقدار،آپکا تابعدار،ضعف العباد،ہیچ مبرز،ہیچ مدان،دبستان نادانی کا ابجد خواں خاک پائےسخنوران نامی زلہ ریائے خوان عسجدی دجامی،خاک بیز کوچہ ناکامی ہے۔آج تو خدا ہی ہمارا حافظ ہے حضرت۔

مجھے ایک حسینہ سے عشق ہوا ہے مگر ابھی تک اسکا دیدار نہیں ہوا۔

اجی حضرت! یہ تو کوئی غور طلب مسلہ ادق نہیں،کہ غور تعمق کا محتاج ہو۔آپ چار دن کا فعل عبث ہے۔آپ فورا دارشفا جائیے اور فصد کھلوائے۔حسینوں پر جان دینا کارعقلائے دہر نہیں،فعل حمقائے روزگار ہے۔

جب تک محبت کا چلن عام رہے گا
ہر لب پے میرا ذکر میرا نام رہے گا

اوہوہوہو! قبلہ واللہ، کیا شعر ہے۔پھڑکا دیا۔روح شاد ہوگئی۔مگر میں جانتا ہوں کہ آپ اس وقت میرے دوکان پر مٹھائی خریدنے نہیں آئے۔بلکہ معلومات لینے آئے ہےکہ وہ نازنین،مہ جبین، دلنشین،پری پیکر،نازک اندام،حسینہ یہاں سے گزری ہے یا نہیں؟

اجی حضرت! آپ تو ہمیں شرمندہ کر رہے ہے؟

ارے قبلہ! آپ لاکھ پتنگ پر چڑھائیے! ہم جھانسے میں نا آئیں گے۔یہ چکما کسی اور کو دیجئے۔

اجی حضرت! چکما،چکمے کی ایک ہی ہوئی۔یہ عجب قماش کی بات ہوئی کہ ہم پوچھے کچھ اور آپ بتلائے کچھ اور؟ واہ واہ

چچا حلوائی! آخر ایسی بھی کیا بےقراری ہے؟

قبلہ! واللہ ہمارا حال نا پوچھئے،رنگ فق،خاصے ہونق،کلیجہ شق،یاد مولا۔یاد حق۔آنکھیں پرنم،کمر خم،اشکبار،بےقرار،شرمسار،منھ پر ہوائیاں چھوٹ رہی ہیں۔کلیجہ دھک دھک کرتا ہے۔ہاتھ کانپنے لگے کھڑے تو ہوئے مگر قدم نا جما،پاوں ڈگمگائے،یہ گرے یہ لاکھڑائے۔

اوسان خطا،حواس پران،کچھ کہنے کو تھے،کہ وحشت نے گلہ دبوچ لیا۔

چچا حلوائی! سلیم میاں شہزادہ سلیم بننے کی ضرورت نہیں۔ہائے امتحان دینا تو لوہے کے چنے چبانا ہے۔انگارے کھانا پے۔پیٹ پے پتھر باندھنا ہے۔نام سنا اور حواس پتیرا۔

سلیم! آج دیدار جو نہیں ہوا۔۔۔

جو پہنچا تربت عاشق پے ناز کہتا ہے
حضور خاک سے ذرا دامن اٹھائے ہوئے

چچا حلوائی! پھر آپ ہی اس عشق کے بحر میں غوطہ لگائیے،اور خدا کرے ڈوب جائیے۔تھاہ خاک نا پائیے۔واللہ میں کیا کروں،میری عقل حیران ہے،حضرت! کوئی مونس ہے نا جلیس،خلیل نا انیس،نامعقول اتنا نہیں سمجھتے کہ ہم حلوائی ہے نا کہ عاشق بدنام،ہم مٹھائی بنانا جانیں یا لوگوں پر نظر جمانا ؟

لو سلیم میاں آگئی وہ جس کے مشتاق تھے۔
ہائے ہائے ہائے۔۔۔

میں تو قتل ہو گیا آج میرا کلیجہ پھٹ جائے گا آج تو قاتل حسینہ اپنے سہلیوں کے ساتھ لٹک مٹک، ناز و انداز سے آرہی ہے۔جس پری کے پہلو میں ایسی ایسی چھیل چھبیلی،بانکی ترچھی،دنیا سے نرالی سہلیاں ہیں۔وہ نازنین،مہ جبین بھلا خود کیسی ہوگی؟

واہ واہ کیا بےمہری کی چال ڈھال اور ادائیں ہیں۔اور جوڑے کا تو حال سنئے کہا خوبصورت ریشمی نارنجی لہنگا،ناز سے پائینچے اٹھائے ہوئے،پڑاقے کی ڈیڑھ ہاتھ چوڑی سرخ اور نارنجی،واہ کیا آسمانی گوٹ ہے جناب سلیم کے دل پر چوٹ ہے۔بلا کا نکھار،غضب کا جوبن،نازک جسم کا جوبن،بھرپور جوانی،ناک میں سونے کی نتھے کی پتلی کیل،کانوں میں تین تین انتیاں بیج میں موتیوں والی بجلیاں، ڈیڑھ بالشت کی گوٹ،سلیم کا دل لوٹ پوٹ۔

کبھی بالوں کو سنوارتی ہے کبھی پائینچے اٹھا کر فنس کے ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے۔کبھی مجھے دیکھ کر مسکرائی ہے،کبھی کمر لچکاتی ہے،

ہائے ہائے۔میں تو لوٹ گیا ظالم یہی کمر لچکا کے چلنا تو مجھے مار ڈالے گا۔

آج تو سلیم میاں کلیجہ پکڑ کر رہ گئے۔ابھی تو میں اس حسینہ کے چلنے کے انداز کے نشے سے لذت یاب ہورہا تھا۔اپنے خیالات میں مستغرق بیٹھا ہوا تھا۔میری اپنی بساط مٹھی بھر کی بھی تو نہیں۔لیکن جہاں حسین چیز دیکھی تو بےتاب ہو گیا،بانسوں اچھلنے لگتا ہوں،دھڑکنے لگتا ہوں،لگتا ہے جیسے میں اس کے سینے میں دھڑکتا ہوں۔

میں اس نازنین کے سینے میں ہوں،اور وہ سینہ کسی ریشمی لباس میں ہے گویا،قدرت کی یہ سب سے نرم اور شفیق اور خوبصورت تخلیق عورت یہ مجھے بہت ہی پیاری اور اپنی،دلاری معلوم ہوتی تھی۔

سلیم میں تو اس لچک لچک کے،کمر لچکا لچکا کر قدم ٹھیڑے میڑھے اٹھا کر چلنے کے اس انداز پر میں مرتا ہوں۔

چچا حلوائی! لڑکی تو خیر مگر لڑکی کی ماں نے بھی خوب کاٹھی پائی ہے۔سنا ہے آپکے چہرے سے تڑخ ٹڑخ نور برستا ہے۔جب بولتی ہے تو زبان سے پھول جھڑتے ہیں۔

اجی حضرت! بس کریں،جھوٹے پر شیطان کی پھٹکار،کچھ اوپر سو برس کا سن،
میں نے دیکھا ہے وہ بوڑھی عورت ہے۔

قبلہ! آپ تو عاشق تن آدمی ٹہرے،جب دیکھو عشق کے پھیر میں،بندہ اس کوچے سے منزلوں بھاگتا ہے۔

\بیان زہرہ تمثال،حسن و جمال،اور عاشقی معشوقی کا خیال،آپ ہی کو مبارک رہے،بندے کو یہ عرض ہی نہیں۔

سلیم میاں آپ ہی اس حسینہ کے چلنے پھرنے کے انداز پے فریفتہ ہے ہم تو نہیں بھلا یہ بھی کوئی چلنا ہوا؟
اجی حضرت! بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔

چلو مبارک ہو سلیم میاں آج پھر سے دیدار یار ہو گیا۔چلی گئی ہے وہ۔اب شائد شام کو واپس اسی راستے سے گزری گی اور مجھے معلوم ہے تم نے یہاں سے ہلنا نہیں جب تک زلزلہ،طوفان یا سیلاب نا آجائیں۔

بس کیا بتاوں جب وہ چلتی ہے تو میرا دل دھک دھک کرتا ہے،کلیجہ منھ کو آتا ہے۔میرے دل کی دنیا میں بھونچال آتا ہے،ہائے ہائے ہائے۔

چچا حلوائی! لگتا ہے سلیم میاں ابھی تک وہ تمھارے حواسوں پر چھائی ہوئی ہے۔ایسا بھی کیا ہے اس میں نامعقول؟

بس کیا بتاوں میٹھے موٹے تربوز جتنے حلوائی! وہ تو وہ ہے نا،چالاک اور چست،خط وخاں،نک سک سے درست شوخ و زبان،جوان ہے،طناز ہے،ہزاروں میں میرا انتخاب پے،لاکھوں میں لاجواب ہے،کروڑوں میں بےمثال ہے،اٹھتی جوانی،عنفعان شباب ہے،مگر بلا کی چنچل ہے،کبھی روٹھ جائے تو کبھی گدگدائے،چھریرا بدن ہو،نازکت سے آنچل کا بوجھ نا اٹھا سکے،کمر لچک جائے،کروڑوں بل کھائے،ہنس مکھ ہے جیسے روتے کو ہنسائے،طرار ہے،مکار ہے،عیار ہے،ستم گار ہے،طرحدار ہے،باغ و بہار ہے،گل و گلستان ہے،جب چلتی ہے تو اٹھلا،اٹھلا کر چلتی ہیں۔میرے خوابوں کی رانی ہے۔
اجی بندہ نواز! سچ بتائیے آپ چرس تو نہیں پیتے؟

لے حضرت! خدا کی مار چرس پر،شیطان کی پھٹکار آج تک کسی معلون نے ہاتھ سے اگر چھوئی بھی ہو۔اس سیاہ کاری سے تو بندہ اب تک بچا رہا،آئندہ بھی خدا مالک ہے۔

میں تو بس اس حسینہ کے چلنے کے انداز پے مرتا ہوں،کیا چلتی ہے،تھرکتی ہے،لچکتی ہے،ہائے ہائے۔

میں تو بس اس کے فرحت بخش،طمانیت بخش،محبت پاش،لطف پاش،الفت انگیز،شفقت انگیز،حیرت انگیز معصوم چہرے پر مرتا ہوں۔جب وہ چلتی ہے تو میرا وجود اپنے آپے میں نہیں رہتا۔

کبھی تو میں اس حسین شے سے لپٹنے کی خواہش کرتا تھا مگر اس کو کہہ نہیں سکتا تھا۔صرف ہمکتا تھا اور وہ حسن کی دیوی کمر لچکا کے گزر جاتی۔یہ ایک حقیقت ہے،یہ ایک دل شکن حقیقت ہے قبلہ۔

چچا حلوائی! سبحان اللہ واہ! کیا شیریں بیانی ہے۔اچھے سلیم میاں واہ! سلیم میاں قربان اس سوجھ بوجھ کے،واللہ اس کتارے کے صدقے۔

اجی قبلہ آپ تو میرے دل کا حال خوب جانتے ہیں۔

چچا حلوائی! سلیم میاں بوریا بسترا باندھئے،آپکا یہاں ٹھکانا نہیں،ناحق کہیں فرشتے میری دوکان پھونک دے۔تو کہی سنوائی بھی نا ہو سکے،حضرت اب میرا پیچھا چھوڑئیے،بس بقچہ سنبھالئے اور کہیں اور بستر جمائیے۔

پیرومرشد آپ بھی بڑے بےایمان آدمی ہے۔حضور تو بھولے بھالے رئیس ہیں۔

جس نے جو کہا فورا باور کر لیا۔جو اسکی کچھ بھی اصلیت ہو۔بھلا کہیں فرشتے دوکان پھونکا کرتے ہیں۔ذرا تو سوچئے۔

چچا حلوائی! جی بس آپ بیٹھے رہے اس کونے میں،دل لگی کا،موقع نہیں بس آج تو جھٹ سے بات کر ڈالئے۔
چچا ایک کلو مٹھائی تو دینا۔

چپ نامعقول تم دیکھتے نہیں ہم دونوں مصروف ہیں۔جاو یہ وقت نہیں تھوڑی دیر بعد آنا شیدے۔

کیوں کیوں سلیم بھائی۔

چپ نامعقول،اجی قبلہ! کوئی ہے،اس کو تو یہاں سے ٹہلاو۔یہ رئیسوں کے صحبت کے لائق نہیں۔مجھ کو بھی تو کوئی گویا مقرر کیا گیا ہے۔یہاں تو جی جلتا ہے اندر ہی اندر پھک رہا ہوں۔تم مفت خوروں کو کسی کے درد دل سے کیا غرض؟

تم کو تو بس چکھتیوں سے مطلب ہے،کھیر ہوں،مٹھائی ہو،لڈو ہو،فرنی ہو،شاہی ٹکڑوں پر ہاتھ پڑے،دل بہلائے کپڑے پھٹے۔

مگر پیٹ میں سب کچھ جائے۔جب میرا معشوق غائب ہو تو بھلا طبیعت کیونکر حاضر ہو؟

فکر نا کریں سلیم بھائی۔۔۔ستارہ جی آرہی ہے ابھی میں اسکے راستے سے آکر آیا ہوں۔

خداوند قربان جاوں۔خداحافظ دوست میرا تو رونگٹا،رونگٹا دعا دے رہا ہے تمھیں اس بات پے۔

بالآخر میرے اس بےقرار دل کو قرار آ گیا اور وہ نازک اندام حسینہ ستارہ اپنے خاص انداز سے کمر لچکا لچکا کر آرہی تھی۔اور غالبا اسکے ساتھ اسکی سن رسیدہ دادی بھی آرہی تھی۔

جلدی چلو ستارہ ۔۔۔جلدی قدم اٹھاو۔۔

ایک تو تم پیدائشی لنگڑی ہو اس طرح مٹک مٹک کے چلتی ہو۔اس لئے تو تمھارا رشتہ نہیں ہوتا۔

اور میں ایک دم ھوش میں آگیا۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button