
اسلام آباد۔30ستمبر (اے پی پی):پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ (پی ایف آئی ) کو ڈگری ایوارڈنگ ادارے کا درجہ دینے کی تیاری کی جارہی ہے جس کے تحت ماحولیات، ماحولیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع پر نئے تعلیمی پروگرامز شروع کئے جائیں گے۔ یہ اقدام پاکستان میں ماحولیاتی تعلیم کو فروغ دینے اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ماہر افرادی قوت تیار کرنے کی جانب ایک اہم پیشرفت قرار دیا جارہا ہے۔پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ ملک کا ممتاز جنگلاتی تحقیق اور تربیتی ادارہ ہے۔
ڈائریکٹر فاریسٹ ایجوکیشن اور فاریسٹری ریسرچ ڈاکٹر انور علی نے ’’ویلتھ پاکستان‘‘ کو بتایا کہ ادارہ ایک نئے سلسلے کے ڈگری پروگرامز شروع کرنے کے لئے تیار ہے جن کا مقصد ملک کے گرین سیکٹر کے لئے ماہر افرادی قوت تیار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تین انڈرگریجویٹ پروگرامز شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جن میں بی ایس ان کلائمیٹ چینج اور بی ایس ان بایو ڈائیورسٹی اینڈ وائلڈ لائف مینجمنٹ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی فاریسٹری، کلائمیٹ چینج، بائیو ڈائیورسٹی اور وائلڈ لائف کے پروگرامز ہوں گے۔ ڈاکٹر انور علی کے مطابق یہ توسیع ایک نئی نسل تیار کرے گی جو پاکستان کے سنگین ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھے گی۔پی ایف آئی کو ڈگری ایوارڈنگ ادارے میں تبدیل کرنے کا منصوبہ پاکستان کی ماحولیاتی تعلیم میں ایک اہم خلا کو پر کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر انور علی نے بتایا کہ ملک میں تقریباً تمام پریکٹس کرنے والے فارسٹ آفیسرز پی ایف آئی کے ہی فارغ التحصیل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں طلبہ صرف کلاس روم کی تعلیم ہی نہیں بلکہ ریسرچرز سے عملی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں، یہی امتزاج ہمارے فارغ التحصیل کو منفرد بناتا ہے۔نوجوانوں کو فاریسٹری کے شعبے میں کیریئر بنانے کی ترغیب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آپ حقیقی معنوں میں فطرت سے محبت کرتے ہیں اور جوش و جذبہ رکھتے ہیں تو یہ شعبہ لا محدود مواقع فراہم کرتا ہے، یہ وہ میدان ہے جہاں آپ براہ راست زمین کے بقا ء میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
ڈاکٹر انور علی نے مزید کہا کہ وہ شہر اور ممالک جہاں فاریسٹری کی تعلیم اور پالیسیاں مضبوط ہوتی ہیں، وہ ہمیشہ زیادہ ماحولیاتی طور پر مضبوط اور اقتصادی طور پر مسابقتی ہوتے ہیں۔ پاکستان کے لئے آج جنگلاتی تعلیم میں سرمایہ کاری کا مطلب ہے ایک صحت مند ماحول، آفات کے خلاف مضبوط مزاحمت اور کل کے لئے عالمی کاربن مارکیٹ میں نئے مواقع۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کے جنگلات صرف قدرتی وسائل نہیں بلکہ آفات کے خلاف ڈھال بھی ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ جنگلات ہمارے بقا اور مزاحمت کے لئے ناگزیر ہیں، خاص طور پر طویل خشک سالی، تباہ کن سیلاب، بڑھتے درجہ حرارت، ہیٹ ویوز اور دیگر شدید موسمی اثرات کے سامنے۔ڈاکٹر انور علی نے بتایا کہ پاکستان کے وسیع چراگاہی علاقے، بنجر زمینیں اور ایگرو فاریسٹری وسائل بڑے پیمانے پر سبز منصوبوں کو سہارا دے سکتے ہیں۔ملک کا تقریباً 60 فیصد رقبہ رینج لینڈ پر مشتمل ہے جو ہمیں منفرد بناتا ہے۔
ایگرو فاریسٹری سسٹمز پہلے سے موجود ہیں، اس لئے ریفاریسٹریشن اور افاریسٹریشن منصوبوں کی گنجائش بے پناہ ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ فاریسٹری بطور ایک ڈسپلن اب صرف لکڑی کی کٹائی تک محدود نہیں رہی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ماحولیاتی نظام بایو ڈائیورسٹی کے تحفظ، واٹر شیڈ اور مٹی کے تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اب نجی شعبے کے ادارے بھی کاربن اور بائیو ڈائیورسٹی کریڈٹ کے منصوبوں کے لئے اس شعبے میں آ رہے ہیں۔ڈاکٹر انور علی کے مطابق کاربن کریڈٹ پاکستان کے لئے عالمی کاربن مارکیٹ تک رسائی کا ایک اہم مالیاتی ذریعہ ہے۔ کاربن کریڈٹ بنانے کے تین بڑے طریقے ہیں: کاربن ہٹانا یا ذخیرہ کرنا، اخراج سے بچاؤ اور اخراج میں کمی۔ جب آپ فضا سے ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہٹاتے ہیں تو اسے ایک کاربن کریڈٹ کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اپنے جنگلات اور چراگاہوں کا درست انتظام کرے تو وہ کاربن کریڈٹس کے ذریعے نمایاں آمدنی حاصل کرسکتا ہے اور عالمی ماحولیاتی اہداف میں بھی حصہ ڈال سکتا ہے۔ فاریسٹری اب صرف درخت لگانے کا نام نہیں رہی، یہ پاکستان کو بین الاقوامی گرین اکانومی میں شامل کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔