معاملات سرکار

محمدمشتاق جدون، سابقہ پبلک سرونٹ(ایڈوائزروفاقی محتسب پشاور)

Spread the love

پاکستان کا نظام عدل مخالفانہAdversial)) یعنی دو فریقین پر مشتمل ہے۔پراسیکوشن، پولیس اور سرکاری وکیل کا کام شہادت پیش کرنا سزا دلوانا اور مقدمہ جیتنا ہے جبکہ ملزم یا مدعاعلیہ اپنا دفاع کرتا ہے اور بذریعہ شہادت صفائی مقدمہ سے بری ہونے کی کوشش کرتا ہے۔عدالت یا ٹریبونل نے فائل اور ہردو فریقین کی شہادتوں پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے۔ یہ دو طرفہ مخالفانہ نظام نہ صرف مہنگا ہے بلکہ انصاف میں تاخیر کا سبب بھی ہے اس کے مقابلہ میں یورپ، امریکہ،جاپان اور کوریا میں بھی انکوائری اور تفتیشی نظام عدل رائج ہے تاکہ سچ اور حقیقت کا تعین کیا جا سکے۔ پاکستان اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کا ممبر ہونے کی حیثیت سے ان تمام پروٹوکولز ڈیکلیریشنز اور کنونشن کا پابند ہے جو انصاف، انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق ہیں۔ آبادی بڑھنے خاص کر شہری آبادی اور نئی ایجادات نے ملک کی حکمرانی، انتظام اور عوام کو سہولیات کی فراہمی میں بھی نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے عوام کو سروس کی فراہمی میں انقلاب پیدا کیا۔ اس ٹیکنالوجی کے کچھ نقصانات بھی سامنے آئے۔ مثلا بینک فراڈ،جعلی شناختی کارڈ یاپاسپورٹ لیکن ایسے فراڈ کی بروقت تشخیص اور مداوابھی ممکن ہوا۔دنیا میں پچھلی تین دھائیوں سے حکومتی اداروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے کئی سروے ہوئے مثلا بدعنوانی۔ انصاف کی فرامی،ریاست کی عملداری، بنیادی حقوق،بچوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ مساوات اور سرکاری سہولیات کی فراہمی بغیر نسلی مذہبی اور جنسی امتیاز کے بغیر یقینی بنانا شامل ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی عوام کو سہولت مثلا پنشن، دستاویزات کا حصول بطور رعایت اور احسان نہ ہو بلکہ مساوات،کوالٹی، بغیر کرپشن اور بروقت بطور بنیادی حق فراہم کی جائے۔ ریاستی محکمے پابند ہوں کہ اگر کوئی دستاویز مثلا شناختی کارڈ یا مالی معاملات اور پنشن وغیرہ کی فراہمی میں تاخیر ہو یا بوجہ نامکمل کاغذات اور متعلقہ سہولیات نہ دی جا سکتی ہواور اگر طریقہ کار میں کمی ہو تو ساحل کی رہنمائی کی جائے اور کمی دور کرنے کے بعد اس کی دادرسی کی جائے انتظامی انصاف(Administrative Justice) کا بنیادی تصور یہی ہے اس لیے کہ انصاف کی فراہمی بروقت اور بغیر اخراجات کے ہو کہ سائلین درجہ بالا دادرسی کے لیے نہ تو عدالتوں میں دیوانی مقدمات دائر کر سکتے ہیں اور نہ ہی دیوانی مقدمے کا انتظار کر سکتے ہیں کیونکہ دیوانی مقدمے کے فیصلے میں کئی سال لگ جاتے ہیں پھر وکیل اور عدالت کی فیس عام آدمی کے بس سے باہر ہے۔ ایک اور حال یہ بھی ہے کہ سائل بدنوانی روکنے والے اداروں کے پاس شکایت درج کرائے۔ اس سے بدعنوان اہلکار کو شاید سزا تو مل جائے لیکن سائل کی دادرسی نہ ہوگی بلکہ دیوانی اور فوجداری مقدمہ کے نام پر محکمہ اس کا جائز کام کئی سال تک التوا میں رکھے گا۔ان ہی وجوہات کی بنیاد پر انتظامی انصاف کے ادارے قائم کیے گئے تاکہ سستا اور فوری انصاف مہیا ہو سکے۔امریکہ میں انتظامی ٹریبونلز کے پاس وسیع اختیارات ہیں ہمارے آئین کے ارٹیکل 212 کے تحت حکومت کو اختیار ہے کہ وہ انتظامی عدالتیں اور ٹریبونل تشکیل دے ان ہی اصولوں کی بنیاد پر 1983 میں وفاقی محتسب ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا وفاقی سطح پر ہر قسم کے احتساب کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح صوبوں میں بھی صوبائی محتسب کا قیام عمل میں لایا گیا۔ وفاقی محتسب کے ادارے کے قیام کو 40 سال ہو چکے ہیں۔ اپنے قیام سے اب تک اس کے چاروں صوبوں میں 17 علاقائی دفاتر قائم ہو چکے ہیں خیبر پختونخوامیں اس کا دائرہ کار ضم شدہ قبائلی اضلاع تک بڑھا دیا گیا ہے۔ سال 2023 میں ایک لاکھ 94 ہزار شکایات دائر ہوئیں جن میں
سے 96 فیصد پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔ سال 2022 کے مقابلے میں شکایات میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے جو وفاقی محتسب کے ادارے پرعوام کے اعتماد کا مظہر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button