علامہ محمد اقبال قادری صاحب کی کتاب كربلا اور حضرت امام حسين پر تبصرہ

ازقلم: نورین خان

Spread the love

آپ کو نیا اسلامی سال محرم الحرام 🌙1446 ہجری مبارک ھو۔🦋

رب العالمین ہمیں ہر قسم کی ناگہانی آفات و بلیات ، بیماریوں ، ظلم و شر و فساد سے محفوظ فرمائے اور اس نئے سال کو ہمارے لیے کامیابیوں ، خوشیوں ، برکتوں اور رحمتوں کا ذریعہ بنا دیں،
دعا ہے الله دین اسلام کو بلند و سرفراز فرماۓ
آمین ثمہ آمین یارب العالمین♥🦋
ان دعاؤں کیساتھ چونکہ محرم کا بابرکت مہینہ شروع ہو گیا ہے۔اس لئے میں نے جس کتاب کا انتخاب کیا اس کا نام ہے خاک کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے مصنف جناب علامہ محمد اقبال قادری صاحب ہے اور نظر ثانی جناب الحافظ القاری مولانا غلام حسن قادری صاحب ہے۔
اس کتاب کے ناشر اکبر بک سلیر،زبیدہ سنٹر،40 اردو بازار لاہور ہے۔اشاعت 2010 کی اور اس کتاب کی قیمت 200 روپے ہیں۔اس کتاب میں ٹوٹل 290 صفحات ہیں اور اس کتاب کا موضوع واقعہ کربلا ہے۔یہ ایک بہترین کتاب ہے اس میں شروع سے تمام واقعات بتائے گئے ہیں۔اس کتاب کی تقریظ میں
فاضل جلیل عالم نبیل مناظر اسلام فضیلۃ شیخ ، مصنف کتب کثیرہ حضرت علامہ مولانا شبیر احمد رضوی خطیب جامع مسجد حنفی بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ
حضرت علامہ مولانا محمد اقبال عطاری صاحب کی ہر تالیف قابل تعریف ہے کیونکہ میری نظر میں آپ عالم باعمل ہیں اور عالم کی ہر تحریر ہی علمی ہوتی ہے۔ علامہ صاحب کی یہ کتاب جوشان اہل بیت کے حوالے سے ہے یقینا یہ موضوع دوسرے موضوعات سے منفرد ہے کیونکہ اہل بیت وہ شان والے ہیں جن کی شان خالق کائنات اور اُس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور وہی شان جو قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہے اس کو صحیح معنوں میں بیان کر دے وہی کتاب لاجواب ہوتی ہے اور یہی کام میرے دیرینہ دوست علامہ مولانا محمد اقبال عطاری صاحب نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے دوست حضرت علامہ صاحب کو صحت و تندرستی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے تا کہ یہ مزید صحابہ واہل بیت علیہم الرضوان کی شان تحریر کرتے رہیں ۔ اللہ تعالی انکی کی تمام خطاؤں کو معاف فرما کر عمر نیک کاموں میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور قبر و حشر کی منازل کو آسان فرمائے اور علامہ صاحب کی اس کتاب کو قبول فرماتے ہوئے ہر عام و خاص کے لیے نافع بنائے ۔
جب آپ لوگ یہ کتاب پڑھیں گے تو مختصر الفاظ میں سارے واقعات سمجھ آ جائے گے۔
کتاب سے اقتباسات۔۔
سب سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا ؟ اس سلسلے میں متعدد احادیث ہیں جن میں
تین نام بہت نمایاں ہیں۔
ا۔ سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا
-۲- سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
۳- سید نا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
سراج الامہ سید نا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے تمام روایات میں تطبیق کرتے ہوئے نہایت قرین قیاس اور مبنی بر انصاف بات کہی ہے۔ آپ فرماتے ہیں: مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عورتوں میں سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا اور بیچوں میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اسلام قبول عنہ نے سے پہلے کیا۔
( تاریخ الخلفاء صفحہ ۳۴)
۔۔۔۔۔۔۔
محبت بھی، محبوب بھی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے آپ کو بے پناہ محبت تھی۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ خود آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کا اعلان فرمایا چنانچہ جنگ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو
يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور اللہ و رسول صلی اللہ
علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں۔“
دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈ ا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عنایت کرکے علی رضی اللہ عنہ کی محبت پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور واضح فرما دیا کہ علی محب الرسل بھی ہے۔ صرف محبت ہی نہیں بلکہ آپ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا خط جو ان لوگوں کی طرف سے لکھا گیا اس میں حضرت امیر معاویہ کے
انتقال اور یزید کی ولی عہدی کا ذکر کرنے کے بعد تحریر کیا گیا تھا کہ ہمارے سر پر کوئی امام نہیں۔ آپ تشریف لائیے خدا تعالیٰ آپ کی برکت سے ہمیں حق کی حمایت نصیب فرمائے۔ دمشق کا گورنر نعمان بن بشیر یہاں موجود ہے مگر ہم اس کے ساتھ نماز جمعہ میں شریک ہوتے اور نہ ہی اس کے ساتھ عید گاہ جاتے ہیں۔ جب ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں تو ہم اس کو یہاں سے نکال کر ملک شام جانے پر مجبور کر دیں
گے۔ (طبری ۱۷۷ ج ۲)
یہ پہلا خط عبد اللہ بن سمیع ہمدانی اور عبداللہ بن دال کے بدست روانہ کیا گیا جو امام عالی مقام کی خدمت میں، ارمضان ۶۰ ھ کو مکہ معظمہ پہنچا۔ اس خط کی روانگی کے بعد دوہی دن کے عرصہ میں ۵۳ عرضیاں اور تیار ہو گئیں جو ایک دو تین اور چار آدمیوں کے دستخط سے تھیں۔ یہ سارے خطوط تین آدمیوں کے ہاتھ ارسال کیے گئے۔ اس کے بعد پھر کچھ مخصوص لوگوں نے عرضیاں بھیجیں اور یہ سب یکے بعد دیگرے تھوڑے وقفہ سے حضرت کی خدمت میں پہنچ گئیں ۔
(طبری ۷ ۷ ا ج ۲)

حضرت مسلم کی روانگی کوفہ کی طرف

آخری خط جو ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ کے بدست حضرت امام عالی مقام کو پہنچا اس کے بعد آپ نے کوفہ والوں کو لکھا کہ تم لوگوں کے بہت سے خطوط ہم تک پہنچے جن کے مضامین سے ہم مطلع ہوئے۔ تم لوگوں کے جذبات اور عقیدت و محبت کا لحاظ کرتے ہوئے بر وقت ہم اپنے بھائی چچا کے بیٹے مخصوص و معتمد مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیج رہے ہیں۔ اگر انہوں نے لکھا کہ کوفہ کے حالات ساز گار ہیں تو انشاء اللہ میں بھی تم لوگوں
کے پاس بہت جلد چلا آؤں گا۔ (طبری ۱۷۸ ج ۲) حضرت مسلم کے دو صاحبزادے محمد اور ابراہیم جو بہت کم عمر تھے اور اپنے باپ کے بہت پیارے تھے اس سفر میں اپنے مہربان باپ کے ساتھ ہو لیے۔ حضرت مسلم نے کوفہ پہنچ کر مختار بن عبید کے ہاں قیام کیا۔ شیعان علی ہر طرف سے جوق در جوق آکر بڑے شوق و عقیدت سے آپ سے بیعت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک ہفتہ کے اندر بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے دست مبارک پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ حضرت مسلم کو جب حالات خوشگوار نظر آئے تو آپ نے حضرت امام حسین کو لکھ دیا کہ یہاں حالات سازگار ہیں اور اہل کوفہ اپنے قول و قرار پر قائم ہیں۔ آپ جلد تشریف لائیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button